اس کے بھائی نے خود کشی کی اور وہ تقدیر کے متعلق خطرناک سوال کرتا ہے

 

 

 

 

میرا چھوٹا بھائی لٹک کر فوت ہو گیا ہے اس کی عمر صرف 25 سال تھی اس کا سبب چھوٹی سی مشکل تھی جو کہ والدہ اور اس کے درمیان جھگڑا ہے ہم سب انتہائی دہشت اور غم کا شکار ہیں – اس کے متعلق کچھ سوالات ہیں جو میں پوچھنا چاہتی ہوں-
اول : اللہ تعالی نے میرے بھائی کی موت کے لۓ یہ قسم کیوں اختیار کی؟
دوم : میرے والد کی عمر 75 برس اور وہ بہت دین پر چلنے والا اور والدہ بہت مہربان اور اچھی طبیعت اور کرم کی مالک ہیں تو اللہ تعالی نے ان دونوں کو ان کی زندگی میں ان جیسا دن کیوں دکھایا ہے ؟
سوم : ہم اپنے بھائی کا کس طرح تعاون کر سکتے ہیں جو کہ ہم میں نہیں ہے ؟ اور ہمارے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اسے جنت میں دیکھ سکیں ؟ اور کیا ہمارے لۓ یہ ممکن ہے کہ ہم اسے سلام پہنچا سکیں اور کیا ہمارا سلام اسے پہنچے گا ؟
جب اس کی موت کے سبب کا چیک اپ ہوا تو پتہ چلا کہ اس کی موت گلا گھٹنے سے نہیں بلکہ ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ ٹوٹنے سے ہوئی ہے ۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے میرے کمرے میں بچے کے لۓ کپڑے کا جھولا تھا بھائی نے چھوٹی سی کرسی پکڑی جو کہ اس کے قریب پڑی ہوئی تھی اور اس جھولے کو اپنی گردن میں باندھ لیا اور یہ کہنے لگا کہ میں اپنے آپ کو قتل کر لوں گا اور والدہ اسی کمرے میں نماز پڑھ رہی تھیں ہمارا خیال یہ ہے کہ اس نے خود کشی نہیں کی اور ہو سکتا ہے کہ وہ غصہ میں آکر اس نے یہ عمل کیا ہو۔
اس کے دوست بھی ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ حقیقتا ایسے لوگوں میں سے نہیں تھا جو کہ خود کشی کا سوچتے ہیں – جب بھی انہوں نے اس کے سامنے خود کشی کا ذکر کیا وہ انہیں سمجھاتا تھا کہ یہ کام اچھا نہیں ۔
اس کی میت کی بھی حالت اچھی تھی اور اس کے چہرہ سے اس طرح کا کوئی عمل ظاہر نہیں ہو رہا تھا اور ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے اور اسے بیدار کر دیں تو کیا اسے کچھ دلیل لے سکتے ہیں ؟
آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ ہمیں جواب ضروری دیں ہم اس کی اچانک موت سے بہت زیادہ غمگین اور پریشان ہیں ۔

الحمد للہ:

ان سوالوں سے قبل تین چیزوں کا جاننا ضروری ہے- اور وہ یہ ہیں ۔

اول : بیشک ہر چیز اللہ تعالی کی تقدیر کے ساتھ ہے اور جو اس دنیا میں خیر اور شر جاری ہے وہ اللہ تعالی کی تقدیر اور تدبیر اور اس کی مشیت سے ہے کیونکہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور تدبیر کرنے والا اور رب نہیں ہے ۔

دوم : اللہ سبحانہ وتعالی کی تقادیر میں جو حکمت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے تو اس جہان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اللہ تعالی کی حکمت بالغہ ہے اگرچہ ہم اس تک پہنچ سکیں یا نہ بلکہ بہت سی اللہ تعالی کی حکمتوں کو بندوں کی عقلیں نہیں پہنچ سکتیں تو اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے اور یہ اس کی حکمت کاملہ پر ایمان کے ساتھ ہی ممکن ہے تو اس کی شرع اور تقدیر میں کسی قسم کا اعتراض جائز نہیں ۔

سوم : خود کشی ایک بہت بڑا جرم اور زندگی کا برے طریقے سے خاتمہ ہے تو شخص اپنے آپ کو مصیبت یا تنگی اور غربت اور غصہ یا کسی اور فعل کی بنا پر قتل کرتا ہے وہ اس سے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی سزا کا مستحق ٹھہرا رہا ہے – ارشاد باری تعالی ہے :

< اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقینا اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ تعالی پر آسان ہے >

اور صحیحین (بخاری ومسلم) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے اپنے آپ کو کسی لوہے سے قتل کیا تو وہ لوہا اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں اس سے اپنے پیٹ میں مارے اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر سے قتل کیا تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں اس کے گھونٹ بھرے گا----------- ) الحدیث

تو جو اس معاملہ میں ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق ضروری ہے کہ اسے اللہ سبحانہ وتعالی کے سپرد کیا جائے ظاہری طور پر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خود کشی کی ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو لٹکایا ہے یعنی اپنی گردن میں رسی باندھی جس کی بنا پر اس کا سانس گھٹ گیا یا تو اس نے خود کشی کی ہے اور یا پھر خود کشی کا ارادہ تھا – واللہ اعلم

اور رہی یہ بات کہ والدین صالح اور نیک ہیں تو یہ اس چیز کے مانع نہیں کہ اللہ تعالی انہیں آزمائش نہ ڈالے اور ان پر مصائب نازل نہ کرے تا کہ ان کا صبر ظاہر ہو سکے اور اس میں ان کے گناہوں کی صفائی ہے اور ان کے گناہ دھونے کا باعث ہے ۔

اور مومن کے تو سب معاملات میں خیر ہوتی ہے اگراسے نعمت ملے تو وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لۓ بہتر ہے اور اگر اسے تنگی اور تکلیف آتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے لۓ بہتر ہے تو تکلیفوں اور مصائب سے آزمائش اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ بندہ اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کے باوجود بے وقعت ہے تو اللہ تعالی پر ایمان اور اس کی اطاعت اور اس کا تقوی اختیار کرنا یہ عزت کا باعث ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر اور اس کی نافرمانی اور فسق پہ ذلت کا سبب ہیں ۔

تو جو شخص کسی مصیبت میں مبتلا کیا گیا تو اس نے صبر کیا تو یہ اس کے درجات میں بلندی کا باعث ہو گا اور مصائب کی بہت سی اقسام ہیں کبھی تو مرض کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی مال چھن جانے کے سبب اور کبھی محبوب کے گم ہونے پر مثلا ، بھائی، یا والد، یا بیوی، یا خاوند تو اللہ تعالی اپنے بندے کو نعمتوں اور مصیبتوں سے آزماتا ہے اور یہ ہی خیر اور شر ہیں ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< اور ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹاۓ جاؤ گے>

اور اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی اطاعت پر مستقیم اور نمازوں کا پابند ہو اور اس سے خود کشی جہالت کے سبب ہو جائے تو اس کے لۓ اللہ تعالی سے معافی اور درگزری کی امید رکھی جا سکتی ہے – بے شک اللہ تعالی غفور رحیم ہے ۔

اور اگر اسے اس بات کا علم ہو کہ خود کشی حرام ہے لیکن اس نے خود کشی اس لۓ کی تاکہ وہ کسی مشکل سے نجات حاصل کر سکے جس سے وہ تنگ آ چکا ہے تو خطرہ ہے کہ وہ اس وعید اور سزا کا مستحق نہ بن جائے جو کہ حدیث میں آئی ہے ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا اور اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرتا اور شرک سے بچا ہوا ہے تو وہ اللہ تعالی کی مشیت میں ہے اگر اللہ تعالی چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے اور عذاب کے بعد وہ آگ سے ضرور نکل آۓ گا -

ارشاد باری ہے :

الله تعالى شرك كو معاف نہیں كرتا اس كى علاوه باقي جسے چا ہے معاف كرديگا

اور فرمان نبوي ہے

< جس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو تو وہ جہنم سے نکل آۓ گا >

اور رہا یہ معاملہ کہ اس کی حالت غسل اور تجہیز وتکفین کے وقت اور جو اس کے چہرے سے اچھائی ظاہر ہو رہی ہے تو وہ اچھے انجام اور حالت کے مانوس ہونے کی بناء پر ہے اور وہ اللہ کے ہاں معذور اور مغفور ہے لیکن یہ بات یقینی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے معاملے زیادہ سے زیادہ خیر ہی کا فائدہ دے سکتے ہیں ۔

اور اگر خود کشی کرنے والا نمازی اور موحد اور مسلمان ہو تو اس کے لۓ مغفرت کی دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کرے اور ان گناہوں میں سے وہ گناہ بھی ہے جو اس نے اپنے آپ کو قتل کر کے کیا ہے ۔

اور لیکن سوال میں جو یہ کہا گیا اور اللہ تعالی نے اسے مارنے کی جو کیفیت اختیار کی ہے اس پر تنقید ہے اور یہ اللہ تعالی کی تقدیر پر اعتراض کی ایک قسم ہے تو اللہ تعالی ہی تقدیر کو مقدر کرنے والا اور وہی ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز اس کی تقدیر کے ساتھ ہے اور وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔

لیکن جو اللہ تعالی کی شریعت کے مخالف ہو تو اس پر تقدیر کی حجت نہیں پکڑی جا سکتی اور جو کچھ اس جہان میں ہو رہا ہے اور جاری ہے ان کی تقدیر کے معاملہ میں اللہ تعالی پر اعتراض کرنا جائز نہیں اور تقدیر اور اللہ سبحانہ وتعالی کی حکمت پر ایمان لانا واجب ہے - .

الشیخ عبدالرحمان البراک

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ