رمضان میں دن کے وقت کافروں کو کھانا فروخت کرنے کا حکم

سوال
سبزی، پھل اور پنیر وغیرہ رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر گاہک یا خریدار مسلمان نہیں ہے تو یہ فطری چیز ہے کہ وہ ان چیزوں کو افطاری کے وقت سے پہلے کھائے گا!
جواب کا متن
الحمد للہ.
جس شخص کے بارے میں ظن غالب ہو یا یقین ہو کہ وہ کھانے کی چیز رمضان میں دن کے وقت کھا لے گا، تو اسے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ مسافر اور مریض وغیرہ جن کا شرعی عذر ہے انہیں فروخت کر سکتا ہے، نیز اس حکم میں مسلمان یا کافر کا کوئی فرق نہیں ہے؛ کیونکہ کفار بھی راجح موقف کے مطابق شریعت کے فروعی مسائل پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں، اس لیے ان کیلیے بھی رمضان میں دن کے وقت کھانا کھانے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی ان کی اس معاملے میں معاونت کی جا سکتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"محققین اور اکثر اہل علم کا جو موقف ہے وہ یہ ہے کہ: کفار بھی شریعت کے فروعی مسائل کے مخاطب ہیں، اس لیے کافر مردوں پر بھی ریشم اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان مردوں پر حرام ہے" ختم شد
"شرح مسلم" (14/ 39)
اسی طرح شرح الکواکب المنیر: (1/500) میں ہے کہ:
"کفار بھی اسلام کے فروعی مسائل یعنی: نماز، زکاۃ، روزہ اور دیگر احکام کے مخاطب ہیں، اس موقف کے امام احمد، شافعی، اشاعرہ، ابو بکر رازی اور کرخی قائل ہیں، اسی طرح قاضی عبد الوہاب اور ابو الولید کے بیان کردہ امام مالک کے موقف کے مطابق امام مالک بھی قائل ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی آیات واضح طور پر موجود ہیں، جیسے کہ:
يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ اے لوگو! تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔[البقرة: 21]
يَاعِبَادِ فَاتَّقُونِ اے میرے بندو! مجھ سے ڈرو۔[الزمر: 16]
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو۔[البقرة: 43]
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ تم پر روزے لکھ دئیے گئے ہیں۔[البقرة: 183]
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ لوگوں پر اللہ کیلیے بیت اللہ کا حج فرض ہے۔[آل عمران: 97]
يَابَنِي آدَمَ اے بنی آدم!۔۔۔[الأعراف: 26]
يَاأُولِي الْأَبْصَارِ ۔۔۔اے بصیرت والو[الحشر: 2]
جس طرح اجماعی طور پر تمام کافروں کو ایمان اور اسلام قبول کرنے کے لیے مخاطب کیا گیا ہے؛ تا کہ [قبول عمل کی] شرط پوری ہو سکے اور وہ ہے ایمان۔" ختم شد
شریعت کے فروعی مسائل سے کافر بھی مخاطب ہیں اس کے مزید دلائل یہ ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے: مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (43) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ
ترجمہ: کس چیز نے تمہیں جہنم میں ڈال دیا؟ [42] وہ کہیں گے ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے [43] اور نہ ہی ہم مساکین کو کھانا کھلاتے تھے۔ [المدثر: 42 - 44]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا
ترجمہ: اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ [68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ [الفرقان: 68، 69]
غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت ان لوگوں کو دگنا عذاب دینے کے بارے میں صریح ہے جو کفر کے ساتھ قتل، اور زنا بھی کرے، یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں گے جنہوں کے کفر کے ساتھ کھاتے پیتے زندگی گزاری ( حرام نہیں کیا)" ختم شد
مستصفی، از غزالی : صفحہ: 74
اور موسوعہ فقہیہ (35/20) میں ہے کہ:
"اللہ تعالی نے قوم شعیب کی کفر کے ساتھ ماپ تول میں کمی بیشی پر بھی مذمت فرمائی، اسی طرح قوم لوط کی کفر کے ساتھ لواطت پر بھی مذمت فرمائی۔۔۔ اس موقف کے شافعی اور صحیح موقف کے مطابق حنبلی بھی قائل ہیں، امام مالک اور ان کے اکثر شاگردوں کے اقوال کا یہی تقاضا بنتا ہے، اسی طرح حنفی مشائخ میں سے عراق سے تعلق رکھنے والے اہل علم کا بھی یہی موقف ہے۔"
متعدد علمائے کرام نے یہ بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت کافروں کو کھانا فروخت کرنا حرام ہے۔
جیسے کہ نہایۃ المحتاج (3/471) میں ہے کہ:
"اس حکم میں یہ بھی ہے کہ: کسی مکلف مسلمان کا کسی مکلف کافر کو رمضان میں دن کے وقت کھانا کھلایا جانا، اسی طرح ایسی صورت میں کسی کافر کو کھانے کی چیز فروخت کرنا جب یقین ہو یا ظن غالب ہو کہ وہ دن کے وقت اسے کھائے گا، یہی فتوی والد محترم رحمہ اللہ نے دیا تھا؛ کیونکہ مذکورہ ہر چیز نافرمانی کیلیے اعانت ہے؛ کیونکہ کافر بھی شرعی فروعی مسائل کے مخاطب ہیں، اور یہی موقف راجح بھی ہے" ختم شد
اسی طرح "حاشية الجمل على شرح منهج الطلاب" (10/310) میں ہے کہ:
"کافر کو روزہ خوری سے عدم ممانعت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ رمضان کے تقدس کا خیال نہ کرے؛ کیونکہ کافر بھی شریعت کے فروعی مسائل کا مخاطب ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ م ر [مراد: رملی رحمہ اللہ] نے فتوی دیا کہ مسلمان کسی ذمی شخص کو رمضان میں عوض یا بلا عوض کے کچھ پلا نہیں سکتا، کیونکہ اس میں نافرمانی ہر معاونت ہے۔" ختم شد
اسی طرح موسوعہ فقہیہ ( 9 / 211 ، 212 ) میں عنوان: "حرام مقصد والی چیز کی بیع" کے تحت لکھا ہے کہ: "جمہور کا مذہب ہے کہ ہر وہ چیز جس کا مقصد حرام ہو اور ہر وہ تصرف جس کے نتیجے میں معصیت ہو وہ حرام ہے، لہذا ہر اس چیز کی بیع ممنوع ہو گی جس کے بارے میں معلوم ہو کہ خریدار کا اس سے مقصد ناجائز ہے۔۔۔
شروانی اور ابن قاسم العبادی نے صراحت کی ہے کہ مسلمان کے لیے ایسے کافر کو کھانا فروخت کرنا ممنوع ہے جس کے بارے میں یقین ہو یا ظن غالب ہو کہ وہ رمضان کے دن میں اسے کھائے گا۔ رملی رحمہ اللہ نے یہی فتوی دیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ : اس لیے منع ہے کہ یہ معصیت پر تعاون ہے ، یہ اس بات پر مبنی ہے کہ کفار فروع شریعت کے مخاطب ہیں" ختم شد
واللہ اعلم

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ