خاوند فوت ہونے كى عدت ميں عورت كا نماز تراويح اور كام كاج كے ليے جانا

 

 

 

ڈيڑھ ماہ قبل ميرا خاوند فوت ہو گيا، ميرى عادت ہے كہ رمضان المبارك ميں نماز تراويح كے ليے جاتى ہوں، تو كيا عدت پورى ہونے سے قبل مسجد ميں نماز تراويح كے ليے جانا جائز ہے؟
اور كيا ميں دوكان پر كام كر سكتى ہوں، يہ علم ميں رہے كہ دوكان اسى گھر ميں ہے جہاں رہتى ہوں، كيا قبرستان جانے والے شخص كے ليے وہاں اگے ہوئے درخت ميں سے كوئى چيز كھانى جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اس مصيبت ميں اجرعظيم عطا فرمائے، اور آپ كو اس كا نعم البدل عطا كرے.

دوم:

فوت شدہ خاوند والى عورت عدت ميں رات كے وقت بغير كسى ضرورت كے باہر نہيں نكل سكتى، نماز تراويح كے ليے آپ كا جانا ضرورت نہيں ہے، اس بنا پر آپ اپنے گھر ميں ہى نماز تراويح ادا كر ليں.

سوم:

جس عورت كا خاوند فوت ہو جائے تو وہ عدت كے دوران دن كے وقت كام كے ليے باہر جا سكتى ہے، ليكن رات كو اسے اپنے گھر ميں رہنا چاہيے، صرف دن كے وقت آپ كا دوكان پر كام كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عدت ميں عورت دن كے وقت ضرورت كى بنا پر گھر سے باہر جا سكتى ہے، چاہے عدت طلاق كى ہو يا خاوند فوت ہونے كى؛ اس كى دليل جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميرى خالہ كو تين طلاقيں ہو گئيں تو وہ باغ ميں جا كر اپنى كھجور كے درخت كا پھل كاٹنے لگيں، انہيں ايك شخص ملا اور اس نے انہيں منع كيا توميرى خالہ نے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ذكر كيا تو آپ نے فرمايا:

" جاؤ جا كر اپنى كھجوروں كا پھل كاٹو، ہو سكتا ہے تم اس سے صدقہ كرو، يا پھر خير و بھلائى كرو "

اسے نسائى اور ابو داود نے روايت كيا ہے.

اور مجاہد رحمہ اللہ روايت كرتے ہيں كہ:

" جنگ احد ميں كچھ لوگ شہيد ہو گئے تو ان كى بيوياں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كرنے لگيں:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں رات كے وقت ڈر لگتا ہے، تو كيا ہم سب اكٹھى ہو كر كسى ايك كے گھر رات بسر كر ليا كريں، اور جب صبح ہو تو ہم جلد اپنے گھروں كو واپس چلى جايا كرينگى ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم سب مل كر كسى ايك كے گھر جا كر باتيں كيا كرو اور جب سونا چاہو ہر ايك اپنے گھر چلى جائے "

اس ليے كسى بھى عورت كے ليے اپنے گھر كے علاوہ كہيں اور رات بسر كرنى جائز نہيں، اور نہ ہى رات كے وقت باہر نكلنا جائز ہے، مگر ضرورت كى بنا پر ہو سكتا ہے، كيونكہ دن كے خلاف رات فتنہ و فساد كى جگہ ہے، اور دن كام كاج اور ضروريات پورى كرنے اور اشياء خريدنے كے ليے ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 130 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

اصل يہى ہے كہ عورت اپنے خاوند كے گھر ميں ہى عدت بسر كرے جہاں وہ خاوند كے فوت ہونے كے وقت تھى، اور وہاں سے بغير كسى ضرورت كے مت نكلے؛ مثلا بيمارى كى حالت ميں ہاسپٹل جانا، اور بازار سے ضروريات كى اشياء خريدنا مثلا روٹى اور سبزى وغيرہ، يہ بھى اس صورت ميں جب اس كے پاس كوئى خريدنے والا نہ ہو اور يہ كام نہ كرے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 440 ).

رہا مسئلہ قبرستان ميں لگے ہوئے درخت كا كھانا تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو قبروں كى زيارت كرنے سے منع فرمايا ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 8198 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ