اولاد اور پوتوں پر خرچ كرنا واجب ہے

كيا آدمى كے ليے اپنے پوتوں اور نواسوں پر خرچ كرنا واجب ہے ؟

الحمد للہ:

مرد كے ليے اپنى اولاد اور پوتوں و نواسوں پر خرچ كرنا واجب ہے.

اولاد پر خرچ كرنے كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

{ اگر وہ عورتيں تمہارى اولاد كو دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى اجرت دو }الطلاق ( 6 ).

يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے بچے كى رضاعت كى اجرت اس كے والد پر واجب كى ہے.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو سفيان كى بيوى ہند رضى اللہ تعالى عنہ كى جب كہا كہ ابو سفيان ايك بخيل آدمى ہے تو آپ نے فرمايا:

" تم اس كے مال سے اچھے طريقہ كے ساتھ اتنا لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كو كافى ہو "

يہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچے كا نان و نفقہ بچے كے والد كے مال ميں واجب كيا ہے.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جن اہل علم سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ سب اس پر متفق ہيں كہ جن چھوٹے بچوں كا مال نہ ہو ان كا نان و نفقہ ان كے والد كے ذمہ واجب ہے " انتہى

جب والد موجود اور مالدار ہو تو بچوں كا نان و نفقہ اس اكيلے پر واجب ہے، ماں پر واجب نہيں ہوگا.

اور اگر باب تنگ دست ہو يا فوت ہو چكا ہو، تو پھر اگر ماں مالدار اور بچے تنگ دست ہوں تو بچوں كا نان و نفقہ ماں پر واجب ہوگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر باپ تنگ دست ہو تو بچوں كا نان و نفقہ ماں پر واجب ہوگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 11 / 373 ).

رہے پوتے اور نواسے تو جمہور علماء كرام كے ہاں ان كا نفقہ بھى واجب ہے، كيونكہ حفيد كو ابن اور ولد كا نام ديا جاتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے بارہ ميں وصيت فرماتا ہے لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ملے گا }النساء ( 11 ).

علماء كرام كا اتفقا ہے كہ يہاں اس آيت ميں " اولاد " كے الفاظ بيٹے كى اولاد كو بھى شامل ہے، اور وہ پوتے ہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كے بارہ ميں فرمايا تھا:

" ميرا يہ بيٹا سردار ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2704 ).

حالانكہ حسن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نواسہ يعنى آپ كى بيٹى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كا بيٹا ہے، تو يہ بيٹى كى جانب سے نواسہ بنےگا.

اس ليے جب نواسہ " ولد " اور " ابن " كہلاتا ہے تو يہ بھى اولاد پر نفقہ واجب ہونے والے دلائل ميں شامل ہوگا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اقرباء كے نفقہ كے متعلق باب:

اصل: اس ميں يعنى آباء و اجداد اور مائيں شامل ہونگى.

فرع: اس ميں آدمى كى فرع يعنى بيٹے اور بيٹياں شامل ہيں.

پھر شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

يہ علم ميں ركھيں كہ يہ باب بھى نكاح كى حرمت كى طرح ہے، اس ميں ماں اور باپ كى جہت كے مابين كوئى فرق نہيں، اس ليے اصل اور فرع چاہے وہ چاہے ذوى الارحام ہوں يا عصبہ يا اصحاب فرض ان سب كا نفقہ شروط كے ساتھ واجب ہو گا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 498 - 499 ).

پوتے پوتياں اور نواسے نواسيوں كا نفقہ واجب ہونے كى شرط يہ ہے كہ وہ تنگ دست ہوں اور ان كے پاس مال نہ ہو جو انہيں كافى ہو، اور دادا و نانا غنى ہو تو دادے اور نانے پر ان كا نفقہ واجب وگا.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم اپنے آپ سے شروع كرو اور اپنى جان پر صدقہ كرو، اگر كچھ بچ جائے تو پھر اہل و عيال پر، اور اگر اہل و عيال سے كچھ بچ جائے تو پھر رشتہ دار پر "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 997 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ