عورت کے علاوہ صرف مرد کے لیے ایک سے زيادہ شادیاں کرنے کے جواز کی حکمت

 

میرے ذہن میں اسلام کے بارہ میں ایک شبہ ہے کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہيں ؟
میرے خیال میں اسلام نے مرد کے لیے مباح کیا ہے کہ اگر اس میں ایک سے زيادہ بیویوں کوہرناحیہ سے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوتووہ ایک سے زيادہ شادیاں کرسکتا ہے ، توکیا اسلام عورت کے لیے جائز قرار دیتا ہے کہ وہ ایک سے زيادہ خاوند کرسکے ؟ وہ اس کی اجازت کیوں نہیں دیتا ؟

الحمدللہ

اسلام نے عورت کے لیے ایک ہی وقت میں ایک سے زيادہ خاوند کرنے کوجائزکیوں نہیں کیا اس کی حکمت کیا ہے ، اس کے بارہ میں ہم گزارش کريں گے کہ علماء کرام نے اسے جائز نہ کرنے میں جوحکمت رکھی ہے اسے بیان کیا ہے ذیل میں ہم چندایک کے اقوال ذکرکرتے ہیں :

امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حکمت کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اللہ تعالی کی یہ حکمت اوراس کا احسان اوراپنی مخلوق پراس کی رحمت اوران کی مصلحت کا خیال اورنگہبانی ہے اوراللہ تعالی اس کی مخالف کرنے سے بلند وبالا ہے اوراس کی شریعت اس سے منزہ اورمبرا ہے کہ وہ ایسی چيزیں لائے کہ اگر عورت کے لیے ایسا کرنا جائز قرار دیا جائے کہ وہ ایک سے زيادہ خاوند کرسکے توپوری دنیا ہی میں فساد پھیل جائے اورسارے نسب بھی ضائع ہوجائيں اورخاوند ایک دوسرے کوقتل کرنا شروع کردیں ، جس سے بہت ہی عظیم اوربڑی مصیبت اورفتنہ بڑھ جائے اورلڑائيوں کے میدان گرم ہوجائيں ۔

اس عورت کی حالت کیسے صحیح رہے گی جس میں شریک لوگ ایک دوسرے کے مخالف ہوں ؟

اورپھر ان شرکاء کی حالت بھی کیسے صحیح رہ سکتی ہے ؟

توشریعت اسلامیہ کا اس کے خلاف حکم لانا جس میں اس طرح کی قباحتیں نہیں پائي جاتی شارع کی حکمت اوراس کی رحمت وعنایت پر سب سے بڑی دلیل ہے ۔

اوراگریہ اعتراض کیا جائے کہ اس میں تومرد کا ہی خیال رکھا گیا ہے اوراسے یہ اختیار دے دیا گيا ہے کہ وہ اپنی خواہش پوری کرتا پھر اوراپنی شہوت اورضرورت کے حساب سےایک عورت سے دوسری کی طرف منتقل ہوتا رہے ، اورعورت کا سبب بھی وہی اوراس کی شھوت بھی وہی ؟

تواس کا جواب ہے کہ جب عورت کی عادت یہ ہے کہ پردے کے پیچھے ہی چھپنے والی ہے اوراپنے گھرکے اندر ہی رہتی ہے ، اوراس کا مزاج بھی مرد کے اعتبار سے ٹھنڈا ہے اوراس کی ظاہری اورباطنی حرکت بھی مرد سے کم ہوتی ہے ، اورمرد کو عورت کے مقابلہ میں وہ قوت و حرارت دی گئي ہے جوکہ شھوت کی بادشاہ ہے اورعورت سے زيادہ ہے ، اورمرد کواس میں مبتلا کیا ہے جس میں عورت کومبتلانہیں کیا گیا ۔

اس بنا پر مرد کے لیے وہ کچھ رکھا گیا جو کہ عورت کونہيں دیا گیا کہ وہ کئي ایک( صرف چار ) عورتوں کو اپنے نکاح میں ایک وقت کے اندر رکھ سکتا ہے ، اللہ تعالی نے صرف مردوں کوہی یہ خصوصیت دی ہے اورانہیں اس کے ذریعہ عورتوں پر فضیلت عطا فرمائي ہے ۔

جیسا کہ مردوں کورسالت ونبوت اورخلافت و امارت اورولایت حکم اورجہاد وغیرہ دے کربھی اللہ تعالی نے فضیلت دی ہے ، اورمردوں کو اللہ تعالی نے عورتوں پر حاکم بنایا ہے کہ وہ ان کی مصلحتوں کا خیال رکھیں اوران کی دیکھ بھال کریں اوران کی معیشت کے اسباب مہیا کرنے میں لگے رہیں ، اوراپنے آپ کوخطرات کے ڈالیں اور زمین کے کونے کونے میں پھریں اوراپنے آپ کوہر تکلیف اورمصیبت میں ڈالیں تا کہ ان کی بیویوں کی ضروریات پوری ہوسکیں ۔

اور رب تعالی شکور اورحلیم ہے تواللہ تعالی نے مردوں کو اس کے بدلہ اورجزا میں انہیں وہ کچھ عطا کیا جوعورتوں نہیں دیا ۔

اورجب آپ مردوں کی تھکاوٹ اوران کی تنگی وتکلیف اوربھوک وپیاس جوکہ انہيں عورتوں کی ضروریات پوری کرتے ہوئے پیش آتی ہے اس کا ان عورتوں کوجس غیرت میں مبتلاء کیا گيا ہے سے موازنہ کريں گے توآپ کویہ ملے گا کہ جوکچھ مرد تکلیف وغیرہ برداشت کرتے ہیں وہ عورتوں کی غیرت کی برداشت سے زيادہ ہے ۔

تویہ اللہ تعالی کی کمال حکمت اوراس کی رحمت ہے ، اللہ تعالی کی اتنی ہی تعریف ہے جس کا وہ اہل ہے ۔

آپ مزید تفصیل کےلیے سوال نمبر ( 10009 ) کا کے جواب کا بھی مراجعہ کریں ۔

واللہ اعلم .

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ