منكرات و برائى پر مشتمل شادى تقريب ميں شريك ہونا

اس دور ميں شادى بياہ كى تقريبات بعض برائى اور منكرات كے ارتكاب سے خالى نہيں ہوتيں مثلا ان ميں گانا بجانا اور موسيقى و رقص اور بےپردگى اور شارٹ لباس ضرور ہوتا ہے ميرا بہت اہم سوال ہے:
1 ـ كيا اس طرح كى تقريب ميں شركت كى دعوت قبول كرنى جائز ہے ؟
2 ـ اگرچہ ان تقريبات ميں ننانوے فيصد تقريبات گانے بجانے سے خالى نہيں ہوتيں خاص كر ان ميں حرام موسيقى يا فحش كلمات ضرور پائے جاتے ہيں، تو كيا اس كا معنى يہ ہے كہ اس طرح كى تقريبات ميں بالكل شريك نہ ہوا جائے ؟
3 ـ اگر ہم اس طرح كى تقريبات ميں شامل نہ ہوں تو كيا يہ قطع رحمى ميں شامل ہوگا اور لوگوں كے درميان عداوت و بغض كا باعث تو نہيں بنےگا ؟
4 ـ اس طرح كى تقريبات ميں شركت كے ليے علماء شرط لگاتے ہيں كہ وہاں اس برائى سے روكا جائے، ليكن اس روكنے والے كى بات كو كہاں تسليم كيا جاتا ہے، اور اصل ميں اس طرح كے اوقات جسے وہ خوشى و سرور كے اوقات سمجھتے ہيں روكنے كى فرصت كہاں ہوتى ہے ؟

الحمد للہ:

1 ـ برائى اور منكرات مثلا گانا بجانا اور موسيقى يا فحش كلمات پر مشتمل شادى بياہ كى تقريبات ميں شريك ہونا جائز نہيں، اور اس طرح كا فساد لوگوں كے درميان پھيلانا مباح نہيں اور لوگوں كے ليے اس كو روكنے اور ختم كرنے سے رك جانا صحيح نہيں، بلكہ ضرور منع كيا جائے.

2 ـ اس طرح كى تقريبات ميں شريك نہ ہونا قطع رحمى شمار نہيں ہوتى، بلكہ يہ تو اپنے آپ كو برائى كا مشاہدہ اور موسيقى سننے سے محفوظ ركھنا ہے، اور رشتہ داروں اور اقرباء كو يہ ضرور بتانا چاہيے كہ اگر وہ اس طرح كى خرافات اور منكرات نہ ہوں تو وہ تقريب ميں ضرور شريك ہو گا.

3 ـ اگر مدعو كو علم ہو كہ اس تقريب ميں برائى اور منكرات پائى جائينگى اور وہ انہيں روكنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اس كے ليے اس تقريب ميں شريك ہونا جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب اسے كسى ايسى تقريب اور وليمہ ميں دعوت دى جائے جس ميں معصيت و نافرمانى ہو مثلا شراب نوشى اور گانا بجانا پايا جائے اور اس كے ليے اس برائى كو روكنا اور ختم كرنا ممكن ہو تو اس كا اس تقريب ميں جانا اور اس برائى سے روكنا لازم ہے؛ كيونكہ اس طرح وہ دو فرض ادا كريگا ايك تو اپنے مسلمان بھائى كى دعوت كو قبول كريگا، اور دوسرا برائى كو ختم كريگا.

ليكن اگر وہ اس كو نہيں روك سكتا تو وہاں نہ جائے، اور اگر اسے اس تقريب ميں جا كر معصيت و برائى كا علم ہو تو وہ اس سے روكے، اور اگر روك نہيں سكتا تو وہاں سے واپس آجائے، امام شافعى نے بھى ايسا ہى كہا ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 214 ).

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اگر شادى كى تقريبات برائى و معصيت مثلا مرد و عورت كے اختلاط اور گانے بجانے اور رقص وغيرہ سے خالى ہوں يا پھر اگر وہاں جائيں اور جا كر اس برائى كو روك ديں تو پھر وہاں اس خوشى ميں شامل ہونا جائز ہے، بلكہ اگر وہاں كوئى برائى ہو جس كو ختم كرنے پر آپ قادر ہوں تو وہاں آپ كا جانا واجب ہو جاتا ہے.

ليكن اگر تقريبات ميں ايسى برائى ہو جس كو آپ روك نہيں سكتے تو آپ كے ليے وہاں جانا حرام ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

﴿ اور ايسے لوگوں سے بالكل كنارہ كش رہيں جنہوں نے اپنے دين كو كھيل تماشا بنا ركھا ہے، اور دنيوى زندگى نے انہيں دھوكہ ميں ڈال ركھا ہے اور اس قرآن كے ذريعہ سے نصيحت بھى كرتے رہيں تا كہ كوئى شخص اپنے كردار كے سبب ( اس طرح ) پھنس نہ جائے كہ كوئى غير اللہ اس كا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشى ﴾الانعام ( 70 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

﴿ اور بعض لوگ ايسے بھى ہيں جو لغو باتوں كو مول ليتے ہيں كہ بے علمى كے ساتھ لوگوں كو اللہ كى راہ سے بہكائيں اور اسے ہنسى مذاق بنائيں يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے رسوا كن عذاب ہے ﴾لقمان ( 6 ).

گانے بجانے اور موسيقى كى مذمت ميں وارد شدہ احاديث بہت ہيں " انتہى

ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب محمد المسند ( 92 ).

واللہ اعلم .


برائے مہربانى مولانا صاحب اگر آپ كے پاس وقت ہے تو اس سلسلہ ميں وافى و شافى معلومات فراہم كريں كيونكہ ہمارے دور ميں يہ مسئلہ بہت پھيل چكا ہے ؟

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ