شادى نہ كرنے كى صورت ميں خود كشى كى دھمكى دى اور پھر كہنے لگا كہ اگر كسى دوسرے لڑكے سے شادى كى تو قتل كردونگا

ميں آپ كے سامنے اپنى مشكل ركھنا چاہتى ہوں مجھے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى مشكل كا كوئى حل نكالےگا: ميں بھى ايك لڑكى ہوں جس طرح دوسرى لڑكياں اس عمر ميں محبت كا شكار ہوتى ہيں ميں بھى شريف قسم كى محبت كا شكار رہى ہوں، اس طرح نوجوانوں كے ساتھ بات چيت شروع كى ، بہر حال جس نوجوان كے ساتھ وہ اس وقت بات چيت كرتى اور تعلق ركھتى ہے وہ لڑكا اس سے عشق كے درجہ كى محبت ركھتا ہے، حتى كہ اس نے لڑكى كے گھر والوں سے اس كا رشتہ طلب كيا ليكن گھر والوں نے نشئى ہونے كى بنا پر اس نوجوان كا رشتہ قبول نہ كيا.
ليكن نوجوان كہتا ہے كہ شادى ہوتے ہى وہ نشہ چھوڑ دے گا، شادى كا انكار ہونے كے بعد اس نوجوان نے كئى ايك بار خود كشى كرنے كى كوشش كى، حتى كہ اس نوجوان كى والدہ نے لڑكى سے رابطہ كر كے بتايا كہ وہ لڑكى اس كے بيٹے كے قتل كا سبب بن رہى ہے.
ليكن اب وہ لڑكى اس لڑكے كو پسند نہيں كرتى.. كيونكہ وہ اسے پاگل اور مجنون سمجھتى ہے، ايك اور نوجوان كا رشتہ آيا ہے اور لڑكى نے يہ رشتہ قبول كر ليا، ليكن جب پہلے نوجوان كو علم ہوا تو وہ آ كر كہنے لگا: اب وہ اپنے آپ كو نہيں بلكہ تجھے يعنى لڑكى كو قتل كريگا، اور وہ كہتى ہے كہ وہ نوجوان كچھ بھى كر سكتا ہے تا كہ كسى اور سے شادى نہ كرے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: اب اس لڑكى كو كيا كرنا چاہيے، كيا وہ كسى دوسرے نوجوان كا رشتہ قبول كر لے يا كيا كرے، برائے مہربانى آپ سوال كا جواب دے كر عند اللہ ماجور ہوں

الحمد للہ:

اول:

اس لڑكى كو ان حرام تعلقات سے توبہ و استغفار كرتے ہوئے اس نوجوان سے ہر قسم كے تعلقات ختم كر دينے چاہيں، اس لڑكى اور اس كے گھر والوں كو ايسا نوجوان بطور خاوند قبول نہيں كرنا چاہيے جو نشہ آور اشياء استعمال كرتا اور خود كشى جيسا اقدام كرنے سے بھى گريز نہيں كرتا، يہ سب فسق و فجور اور دينى قلت و كمزورى كى دليل ہے، اگر وہ نشہ چھوڑنے ميں سچا ہوتا تو اب تك نشہ چھوڑ چكا ہوتا.

اسى طرح اس لڑكى كو چاہيے كہ وہ اس نوجوان كى خود كشى يا اپنے آپ كو اذيت دينے كے معاملہ كى طرف التفات مت كرے، كيونكہ يہ معاملہ اس سے متعلق نہيں، اور نہ ہى اس كا اس پر محاسبہ ہوگا.

دوم:

جب لڑكى كے ليے كسي ايسے شخص كا رشتہ آئے جو دينى اور اخلاق طور پر صحيح ہو تو يہ رشتہ قبول كرنا چاہيے كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.

اس لڑكى كو چاہيے كہ وہ اپنے گھر والوں كو بتائے كہ نوجوان نے اسے دھمكى دى ہے تا كہ گھر والے اپنى لڑكى كو اذيت و تكليف سے محفوظ ركھ سكيں، ہم لڑكى كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں ميں سے ايسے شخص كو اختيار كرے جو شدت و قوت كا مظہر ہو، وہ نوجوان كے خاندان والوں كو بلا كر انہيں بتا ديں كہ اگر نوجوان نے ان كى لڑكى كو كوئى تكليف دى تو پھر انجام اچھا نہيں ہوگا.

كيونكہ ايسے افراد كے ليے تو اس طرح كے افراد ہى ہونا چاہيں جو اسے سبق سكھائے اور انہيں ايسا كام كرنے سے روك سكيں، اور لڑكى كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ اگر آپ كے ملك ميں ممكن ہو سكے تو وہ پوليس وغيرہ ميں رپورٹ كرے كہ فلاں شخص اسے اذيت و تكليف دينے كى دھمكى ديتا ہے؛ تا كہ وہ اس كے خلاف كوئى مناسب اقدام كريں، يا پھر كم از كم وہ اس نوجوان سے اقرار نامہ لے كہ وہ لڑكى كو كوئى تكليف نہيں دےگا.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہم اور سب مسلمانوں سے ظاہرى و باطنى فتنوں اور آزمائش كو دور كرے.

واللہ اعلم .

.

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ