قرآن مجید میں حروف مقطعات کی مراد

اس آيت { الم } اور قرآن مجیدمیں اس طرح کی دوسری آیات سے کیا مراد ہے ، اورعلماء کرام اس قسم کی آیات کے بارہ میں کیا کہتے ہیں ؟

الحمد للہ
اکثر علماء کرام نے ایسی آیات جن میں حروف مقطعات ہیں کی تفسیرمیں توقف کیا ہے ، مثلا خلفاء راشدین ، اور باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ اورنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اس کی تفسیر ثابت ہے ۔

تو بہتر اور صحیح یہی ہے کہ ہم ان کے بارہ میں یہی کہیں ، اللہ اعلم بالمراد منھا ، کہ ان کی مراد اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، لیکن بعض صحابہ اور تابعین اورتبع تابعین سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے اس کی تفسیر کی اور اس میں ان کا اختلاف بھی پایا جاتا ہے ۔۔ ا ھـ دیکھیں الصحیح المسبورمن التفسیر بالماثور للدکتور حکمت بشیر ( ج 1 / ص 94 ) ۔

اوربعض علماء کرام نے ان حروف کی حکمت تلاش کرتے ہوۓ کہا ہے کہ : واللہ اعلم ، یہ حروف ان سورتوں کے شروع میں ذکر کیے گۓ ہیں جن میں اعجاز قرآن کا بیان ہے ، اور مخلوق اس کے معارضے سے قاصر ہیں ، اور وہ اس لیے کہ یہ حروف ان ہی حروف سے مرکب ہیں جن حروف کے ساتھ وہ مخاطب ہوتے اور اپنی کلام استعمال کرتے ہیں ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ نے اسی قول کی طرف داری کی ہے اور ابوالحجاج المزی رحمہ اللہ تعالی نے اس قول پسند کیا ہے ۔

اور اللہ تعالی ہی توفیق بخشنےوالا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرماۓ ، آمین ۔

فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج 4 / ص 144

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ