قرآن کریم میں آیات وسورتوں کی ترتیب

قرآن مجید میں سورتوں کی ترتیب نزول کےاعتبار سے کیوں نہيں ؟

الحمد للہ
قرآن مجید کی آيات وسورتوں کی ترتیب پربہت سی نصوص اور اجماع ایک معلوم ومشہور معاملہ ہے ، اس پراجماع نقل کرنے والوں میں کئ ایک علماء شامل ہیں جن میں زرکشی نے برھان میں اور ابوجعفر نے بھی نقل کیا ہے جس کی عبارت کچھ اس طرح ہے :

قرآن مجیدمیں سورتوں کی ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےتوقیفی اور ان کےحکم سےہیں جس میں مسلمانوں کےدرمیان کوئ اختلاف نہیں۔انتہی۔

اسکے متعلق نصوص میں سے کچھ یہ ہیں :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ آپ کو کس نے اس پر ابھارا کہ سورۃ انفال جو کہ سوسے کم آیات اور سورۃ البراءۃ جوسو سے زیادء آيات پرمشتمل ہےکےآپس میں ملادیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی نہیں لکھی اور انہیں سات لمبی سورتوں میں رکھا ہے ۔

توعثمان رضی اللہ تعالی تعالی کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ نازل ہوتی تھی ، جب بھی کوئ‏ آیت نازل ہوتی آپ کاتبوں کو طلب کرکے کہتے کہ یہ آيات فلاں سورۃ جس یہ کچھ مذکورہے میں لکھ دو ۔

سورۃ الانفال مدینۃ میں نازل ہونے والی ابتدائ سورتوں میں سے ہے اور سورۃ البراءۃ نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں ہے اس کا مضممون سورۃ الانفال سےملتاجلتا ہے تو یہ گمان کرلیاگیا کہ یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوۓ تواس کے متعلق بیان نہیں کیا کہ یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے لھذا میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور اسے سبع الطوال ( سات لمبی سورتوں میں رکھا۔

اسے امام احمداور ابو داود اور امام ترمذی اور نسائ اور ابن حبان اور حاکم روایت کیا ہے ، امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہااورامام ذھبی رحمہ اللہ نےاس میں موافقت کی ہے دیکھیں المستدرک ( 2 / 320 )

اورامام احمدنے مسند( 4 / 218 ) میں حسن کی سندسے عثمان بن ابی العاص سے بیان کیا :

عثمان بن ابی العاص بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے نظریں اٹھا‏ئیں اور پھر سیدھی کرلیں کہ حتی کہ قریب تھا کہ زیمن کے ساتھ ملادیں ، پھر نظریں اٹھا کر فرمایا میرے پاس جبریل علیہ السلام آۓ اور حکم دیا کہ میں یہ آيت اس سورۃ میں فلاں جگہ پر رکھوں { ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون } بیشک اللہ تعالی عدل واحسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا اور فحاشی اوربرائ اور بغاوت سے روکتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔ مسند احمد ( 4 / 218 ) ۔

ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن زبیر رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا سورۃ البقرۃ میں جو یہ آيت ہے { والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا } اس فرمان تک { غیراخراج } کو دوسری آیت نے منسوخ کردیا ہے آپ نے اسے کیوں نہیں لکھا تو وہ کہنے لگے بھتیجے اس رہنے دو میں نے کسی بھی چیزکو اس کی جگہ سے تبدیل نہیں کیا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4536 ) ۔

عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زيادہ کلالہ کے بارہ میں سوال کیا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ میں انگلی مارکرکہا کیا تمہیں سورۃ النساء کی آخری آیت الصیف کافی نہیں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1617 )

اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آخری ايات کے متعلق بھی نصوص واردہیں ۔

ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ مرفوعابیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے سورۃ الکھف کی پہلی دس آیات حفظ کیں وہ دجال سے محفوظ رہے گا ۔

اور ایک روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں جس نے سورۃ الکھف کی آخری دس آیات پڑھیں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 809 ) ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کی موجودگی میں مختلف سورتوں کا پڑھنا بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان سورتوں میں آیات کی ترتیب توقیفی ہے ، اورصحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو‏ئ ترتیب کے خلاف مرتب نہیں کرسکتے تو یہ تواتر تک جا پہنچتا ہے ۔

قاضی ابوبکر نے " الانتصار " میں کہا ہے کہ :

آیات کی ترتیب کا معاملہ واجب اور حکم لازم ہے اس لۓ کہ جبریل علیہ السلام فرماتے کہ یہ آيت فلاں جگہ پر رکھو ۔

اور قاضی ابوبکر کا یہ بھی قول ہے کہ : ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ :

اللہ تعالی کانازل کردہ مکمل قرآن مجیداس کے رسم کوثابت رکھنے کا حکم دیااور منسوخ نہیں کیا اور نہ ہی نزول کے بعد اس کی تلاوت کومنسوخ کیا ہے ، یہ وہی ہے جو مصحف عثمان کے دو گتوں کے درمیان پایا جاتاہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی رزیادتی نہيں ، اور اس کی ترتیب و نظم اسی طرح ثابت ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے مقرر فرمائ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ترتیب دیا اس میں کوئ بھی سورۃ ایک دوسری سے مقدم ومؤ‎خر نہیں کی گئ ، اور یہ کہ امت نے سورتوں کی ترتیب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ضبط کی ہے جس طر ح کہ اس کی تلاوت و قرآات ثابت ہیں ۔۔

امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنۃ میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو قرآن مجید اسی ترتیب پر پڑحاتے اور سکھاتے تھے جو کہ آج مصاحف میں موجود ہے اورجبریل علیہ السلام انہیں نزول کے وقت انہیں بتاتے کہ یہ آیت فلاں سورۃ میں فلاں جگہ پرلکھی جاۓ ، تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کی سعی وکوشش قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کی تھی نہ کہ اس کی ترتیب میں اس لۓ کہ قرآن کریم اسی ترتیب کےساتھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا تھا تو اللہ تعالی نے بالجملہ اسے آسمان دنیا پر نازل فرمایا ، پھر اس کے بعد بوقت ضرورت قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا اورترتیب نزول تلاوت کی ترتیب کے علاوہ ہے ۔

تو کیا سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا کہ صحابہ کرام کا اجتھاد ؟ اس مسئلہ میں اختلاف پایاجاتا ہے ، جمھوردوسرے قول کے قا‏ئل ہیں جن میں امام مالک اور قاضی ابوبکر کا ایک قول ہے ۔

ابن فارس کا قول ہے کہ :

قرآن کریم کے جمع کی دوقسمیں ہیں ایک سورتوں کی تالیف مثلا سبع طوال سورتوں کی تقدیم کے بعد سوآيات والی سورتوں کا لانا ، تو صحابہ کرام نے یہ کام کیا ۔

اور دوسری قسم آیات کو سورتوں میں جمع کرنا ، یہ قسم توقیفی ہے جس میں کسی کا بھی دخل نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاللہ تعالی کے حکم سے جبریل علیہ السلام کے کہنے کے مطابق اس کی ترتیب دی ۔

تو اس سے ہی سورتوں کی ترتیب میں سلف کے اختلاف پر استدلال کر کے بعض نے سورتو ں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے کی جس طرح کہ مصف علی رضی اللہ تعالی عنہ ہے جس کی پہلی سورۃ اقراء پھر مدثر پھر نون پھر مزمل اور اسی طرح دوسری سورتیں ، اور ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کےمصحف میں پہلی سورۃ البقرۃ پھر النساء پھر آل عمران ، اور اسی طرح مصحف ابی بھی اختلاف شدید کے ساتھ ۔

اور کرمانی کا " البرھان " میں یہ قول ہے کہ :

اللہ تعالی کے ہاں لوح محفوظ میں سورتوں کی ترتیب اسی طرح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جبریل علیہ السلام کے ساتھ ہرسال جتنا بھی جمع ہوچکا ہوتااسے اسی ترتیب سے دور کیا کرتے تھے ، جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوۓ اس میں انہوں نے جبریل علیہ السلام کےساتھ دو مرتبہ دور کیا ، نزول کے اعتبار سے آخری آیت { واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ } نازل ہو‏ئ تو جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ حکم دیا کہ یہ آیت آيت ربا (سود) اور دین ( قرض ) کے درمیان لکھيں ۔

اور " برھان " میں زرکشی کا قول اس طرح منقول ہے :

دونوں فریقوں میں لفظی اختلاف ہے اس لیے کہ دوسرے قول کے قائلین یہ کہتے ہیں کہ ان کی طرف اس کا اشارہ کیا گيا ہے تاکہ اس کے اسباب نزول اور کلمات کے مقامات ان کے علم میں لاۓ جاسکیں ۔

اور اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : انہوں نے قرآن مجیدجس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا اسی طرح جمع کیا اور سورتوں کی ترتیب میں انکااجتھاد تھا تو اس میں اختلاف یہ ہے کہ کیا یہ توقیف قولی ہے یا کہ صرف اسناد فعلی سے متعلق ہے جس میں انکے لیے تدبروتفکر کی گنجائش پائ جاتی ہے ۔

اورامام بیھقی " المدخل " میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کریم میں انفال اور برآءۃ کے علاوہ باقی سورتوں اورآیات کی ترتیب اسی طرح ہی تھی جیسا کہ حدیث عثمان رضي اللہ تعالی عنہ گذر چکی ہے ۔

اور ابن عطیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ :

بہت ساری سورتوں کی ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی معروف تھی مثلا سبع الطوال ( سات لمبی سورتیں ) ، اور وہ سورتیں جن کے شروع میں حم آتا ہے ، اور سورالمفصل اورہو سکتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداس کے علاوہ باقی سورتوں کا معاملہ امت کے سپرد کردیا گيا ہو ۔ ابوجعفر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

آثارابن عطیہ کے بیان سے زیادہ شاھد ہیں اورباقی بہت ہی کم چیز بچتی ہے جس میں اختلاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( زہراوین پڑھا کرو جو کہ آل عمران اور البقرۃ ہيں ) صحیح مسلم ( 804 ) ۔

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ سورۃ بنی اسرا‏ئیل ، اور الکہف ، مریم ، طہ ، الانبیاء ، یہ پہلی اور قدیم سورتوں میں سے ہيں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4739 ) ۔

اور ابوجعفر النحاس کہتے ہیں کہ مختاربات یہ ہے کہ سورتوں کی یہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی اسی طرح ہے جیسا کہ حدیث واثلہ رضی اللہ تعالی عنہ میں ہے کہ ( سبع الطوال تورات کی جگہ پر دی گئ ہیں ) وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلالت ہے کہ قرآن کریم کا جمع کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےماخوذ ہے ۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :

سورتوں کی ایک دوسروں یا اکثر پر ترتیب اس کے توقیفی ہونے میں مانع نہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس کی ترتیب توقیفی ہونے پر مندرجہ ذیل حدیث دلالت کرتی ہے :

اوس بن حذیفۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیارکی تو ان سے سوال کیا کہ آپ قرآن مجید کی تقسیم کیسے کیا کرتے تھے ، انہوں نے جواب دیا ہم چھ اور پانچ اور سات اور نواور گيارہ اور تیرہ سورتوں میں تقسیم کرتے تھے اور سورۃ ق سے قرآن کریم کے آخر تک حزب مفصل میں تقسیم کرتے تھے ۔

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسملم کے دور میں سورتوں کی ترتیب پر دلالت کرتا ہے ( وہی ترتیب آج مصاحف میں پا‏ئ جاتی ہے ) اور اس کا احتمال ہے کہ خاص کر اس وقت حزب المفصل باقی دوسری سورتوں کے خلاف مرتب تھا ۔

دیکھیں : الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ( 1 / 62 – 65 )

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ