كيا تقليد كا فتوى دينا جائز ہے ؟

كيا تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اس ميں كئى اقوال ہيں:

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

پہلا:

تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ علم كے ساتھ نہيں، اور بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے، لوگوں كے اس ميں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا كہ تقليد علم نہيں، اور يہ كہ مقلد پر عالم كے نام كا اطلاق نہيں ہوتا، اكثر اصحاب اور جمہور شافعيہ كا قول يہى ہے.

دوسرا:

اس كى اپنى ذات كے ليے يہ جائز ہے، اس كے ليے كسى دوسرے علماء كى تقليد كرنا جائز ہے، جب يہ فتوى اس كے اپنے ليے ہو، جو فتوى كسى دوسرے كے ليے دے اس ميں اسے عالم كى تقليد كرنى جائز نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابن بطہ وغيرہ كا قول يہى ہے.

اور قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابن بطہ نے برمكى كى جانب لكھے ہوئے مكتوبات ميں ذكر كيا ہے:

مفتى سے جو سنا ہے اس كا فتوى دينا اس كے ليے جائز نہيں، بلكہ اس كے خود اس كى تقليد كرنا جائز ہے، ليكن وہ كسى دوسرے كو تقليد كا فتوى دے تو يہ جائز نہيں.

تيسرا قول:

ضرورت اور كسى مجتھد عالم دين كى عدم موجودگى كے وقت جائز ہے، يہ صحيح ترين قول ہے، اور عمل بھى اسى پر ہے، قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابو حفص نے اپنى تعليقات ميں ذكركيا ہے كہ:

" ميں نے ابو على حسن بن عبد اللہ النجاد كو كہتے ہوئے سنا:

ميں نے ابو الحسين بن بشران سے سنا وہ كہہ رہے تھے: ميں اس شخص پر عيب جوئى نہيں كرتا جو امام احمد سے پانچ مسائل ياد كرے اور مسجد كے كسى ستون كے پاس بيٹھ كر فتوى دے " .

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 37 - 38 ).

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ