دفتر سے بعض اشياء ليتا رہا ہے، توبہ كرنے كے بعد اسے كيا كرنا ہو گا؟

ميں سركارى ملازم ہوں، ميں دفتر سے بعض اوقات كچھ پنسليں، اور سادہ كاغذات، اور كچھ سٹيپلر، اور ريموور وغيرہ اٹھا كر گھر لے جايا كرتا تھا، اس كے بعد اللہ تعالى نے مجھ پر توبہ كرنے كا احسان كيا تو الحمد للہ ميں سيدھے راہ پر آگيا، ليكن مجھے ان اشياء كا كيا كرنا ہو گا تا كہ ميرا ضمير مطمئن ہو سكے، يہ علم ميں رہے كہ مجھے علم نہيں كہ يہ اشياء ميں نے كس آفس سے اٹھائيں تھيں، مجھے كيا كرنا ہو گا ؟

الحمد للہ :

اللہ سبحانہ وتعالى نے امانت كى حفاظت كرنے كو واجب كيا ہے، اور لوگوں ما ناحق مال حاصل كرنا حرام قرار ديا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{بلاشبہ اللہ تعالى حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے مالكوں كو لوٹا دو} النساء ( 58 ).

ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كى قسم تم ميں سے جو كوئى بھى كسى شخص كى ناحق چيز لے گا، وہ روز قيامت وہ اس چيز كو اپنے كندھوں پر اٹھا كر اپنے پروردگار سے ملے گا، ميں تم ميں سے ايك كو جان لونگا وہ اللہ سے ملے گا تو اس نے اونٹ اٹھا ركھا ہو گا اور وہ آواز نكال رہا ہو گا، يا اس نے گائے اٹھا ركھى ہو گى اور وہ آواز نكال رہى ہو گى، يا پھر بكرى اٹھا ركھى ہو جو مميا رہى ہو گى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ بلند كيے حتى كہ ان كى بغلوں كى سفيدى نظر آنے لگى، اور فرمايا: اے اللہ كيا ميں نے پہنچا ديا ؟"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6578 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 )

اس اللہ رب العزت كا شكر ہے جس نے آپ پر احسان كيا اور آپ كو توبہ كى توفيق دى، اور يہ اللہ تعالى كى نعمت ہے جو شكر كى مستحق ہے، لہذا اس پر آپ اللہ تعالى كا شكر ادا كريں، اور مزيد اس كا فضل اور توفيق طلب كريں.

اور يہ ضرورى نہيں كہ آفس كے سامنے آپ اپنے آپ كا ضرور ظاہر كريں، بلكہ يہى كافى ہے كہ آپ وہاں سے لى گئى اشياء واپس كرديں، يا پھر اس طرح كى اشياء كسى بھى طريقہ سے واپس لوٹائيں، اور اگر واپس كرنا ممكن نہ ہوں تو پھر آپ ان اشياء كى قيمت نيكى و بھلائى كے كاموں ميں صرف كرديں.

آپ كو چاہيے كہ جس آفس سے آپ نے وہ اشياء اٹھائيں تھيں اسے تلاش كريں، ليكن اگر آپ اس كى پہچان نہ كرسكيں تو - ان شاء اللہ - آپ كے ليے اس كمپنى يا دفتر كى اشياء واپس كرنا ہى كافى ہے.

مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص آرمى ميں ملازمت كرتا تھا اس نے افسر كى اجازت كے بغير اوركوٹ لے ليا، اس كا كيا حكم ہے؟

كميٹى كا جواب تھا:

آپ كو چاہيے كہ جو اور كوٹ ليا تھا اسى طرح كا كوٹ يا پھر اس كى قيمت اسى دفتر ميں ادا كريں جہاں سے ليا تھا، اور اگر ايسا نہيں كر سكتے تو اس كى قيمت كسى فقير پر صدقہ كرديں. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 430 ).

مزيد معلومات حاصل كرنے كے ليے مندرجہ ذيل سوالوں كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں:

( 43100 ) اور ( 40019 ) اور ( 33858 ) اور ( 20062 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ