كيا منگيتر كو عيب بتانا ضرورى ہے يا كہ اس كے گھر والوں كو ؟
ميں پچيس برس كا جوان ہوں اور ميرے مادہ منويہ ميں سپرم كمزور ہيں، جو ايك سے پانچ فيصد تك ہيں ڈاكٹر حضرات كا كہنا ہے كہ اس سے حمل نہيں ٹھر سكتا، اور مصنوعى طريقہ سے ہو سكتا ہے ليكن اس كا امكان بھى بہت كم ہے.
اب ميں ايك لڑكى سے منگنى كرنا چاہتا ہوں، ميں نے بڑى وضاحت كے ساتھ اس كو سارا معاملہ كہہ ديا ہے، وہ راضى و خوشى اور ايمان كے ساتھ قبول كر رہى ہے كہ سب كچھ اللہ كے ہاتھ ميں ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: آيا يہ سب كچھ اس كے گھر والوں كو بتانا چاہيے يا كہ نہيں ؟
الحمد للہ:
اگر لڑكى كو علم ہو كہ سپرم كمزور ہيں اور اولاد نہ ہونے كا احتمال ہے اور اس كے باوجود لڑكى شادى كرنے پر راضى ہو لڑكى عاقل و بالغ ہو تو يہ كافى ہے، اور اس كے ولى كو يہ سب كچھ معلوم ہونے پر موقوف نہيں ہوگا، كيونكہ يہ لڑكى كا حق ہے.
فقھاء كرام نے بيان كيا ہے كہ بيوى يا خاوند كو جب علم ہو جائے كہ ان ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جاتا ہے جو نكاح فسخ كرنے كا باعث ہے، چاہے علم عقد نكاح كے وقت ہو يا بعد ميں اور وہ اس عيب پر راضى ہو تو فسخ كا اختيار ساقط ہو جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان عيوب كے ساتھ اختيار كا ثبوت اس وقت ہو گا جب اسے عقد نكاح كے وقت علم نہ ہو، اور نہ ہى وہ عقد نكاح كے بعد اس پر راضى ہو، چنانچہ اگر عقد نكاح ميں اس كو علم ہو گيا يا بعد ميں علم ہوا اور وہ اس پر راضى ہو جائے تو اسے كوئى اختيار حاصل نہيں ہوگا، اس ميں ہميں كسى اختلاف كا علم نہيں " انتہى
ديكھيں: ( 7 / 142 ).
اور المدونۃ ميں درج ہے:
ميں نے كہا: يہ بتائيں كہ اگر عورت نے كسى ايسے شخص سے شادى كر لى جس كا عضو تناسل كٹا ہوا ہو، يا وہ شخص خصى ہو اور عورت كو اس كا علم بھى ہو تو ؟
ان كا كہنا تھا: اس كو كوئى اختيار نہيں رہےگا، امام مالك رحمہ اللہ نے ايسے ہى كہا ہے.
وہ كہتے ہيں: امام مالك رحمہ اللہ كا قول ہے: جب عورت كسى خصى مرد سے شادى كرے اور اسے اس كا علم نہ ہو تو عورت كو جب اس كا علم ہو جائے تو اسے اختيار حاصل ہوگا چنانچہ امام مالك كا قول ہے كہ: جب اسے علم ہو جائے تو اسے كوئى اختيار نہيں رہےگا " انتہى
ديكھيں: المدونۃ ( 2 / 144 ).
اور كشاف القناع ميں درج ہے:
" چنانچہ اگر خاوند اور بيوى ميں سے جسے كوئى عيب نہيں اسے عقد نكاح كے وقت دوسرے ميں عيب كا علم ہو تو اسے كوئى اختيار نہيں ہوگا، يا پھر عقد نكاح كے بعد اسے عيب كا علم ہوا اور وہ اس پر راضى ہو گيا تو بھى اسے كوئى اختيار نہيں ہوگا، المبدع ميں ہے: ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى اختلاف نہيں " انتہى بتصرف
ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 111 ).
اور سرخسى حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر عورت نے ان ( يعنى كٹے ہوئے عضو تناسل والے شخص يا خصى يا بانجھ شخص سے ) ميں سے كسى ايك سے شادى كر لى اور اسے اس كى حالت كا علم ہو تو اس عورت كو كوئى اختيار نہيں رہےگا؛ كيونكہ جب اس نے اس شخص كى حالت كا علم ہونے كے باوجود عقد نكاح كيا تو وہ اس پر راضى تھى، اور اگر وہ عقد نكاح كے بعد اس پر راضى ہوئى اور كہا كہ ميں راضى ہو تو بھى اختيار ساقط ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: المبسوط ( 5 / 104 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 69 ) بھى ديكھيں.
يہ معلوم ہے كہ جن عيوب كو علماء نے مرحلہ وار ذكر كيا ہے سپرم كى كمى ان سے كم ہے.
علماء كرام كى كلام اس ميں ظاہر ہے كہ: عيب كے متعلق علم عورت كے ليے كافى ہے، اور اس كے گھر والوں كو بتانا شرط نہيں.
اور اولاد پيدا كرنے كا مسئلہ ايك ايسا مسئلہ ہے جسے كو ہم و غم نہيں بنا لينا چاہيے، كتنے ہى ايسے افراد ہيں جنہيں بہت كچھ كہا گيا، ليكن اللہ عزوجل نے اس كے باوجود نے اسے اولاد سے نوازا، چنانچہ حكم تو اللہ سبحانہ و تعالى كا ہے اور يہ فضل تو اسى كے ہاتھ ميں ہے.
آپ كو اس كے ليے علاج معالجہ جيسے اسباب مہيا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے اس كا فضل مانگيں.
يہاں ہم يہ تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ منگيتر آپ كے ليے ايك اجنبى عورت ہے جب تك اس سے نكاح نہ ہو جائے اس سے خلوت كرنى اور اسے چھونا جائز نہيں، اور شادى كے متعلق بھى بات چيت آپ اس كے ولى كے ساتھ ہى كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ