شوال ميں شادى منحوس ہونے كى بدعت
لوگ كہتے ہيں كہ شوال ميں شادى كرنا صحيح نہيں، كيا يہ بات صحيح ہے ؟
الحمد للہ:
ابن منظور رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شوال معروف مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، جو رمضان المبارك كے بعد آتا ہے اور حج كے مہينوں ميں پہلا مہينہ ہے "
كہا جاتا ہے كہ:
اس كا نام اس ليے ركھا گيا كہ اوٹنى كا دودھ كم اور ختم ہو جاتا تھا، سخت گرمى اور ترى كے انقطاع ميں ايسا ہى ہوتا ہے ... عرب لوگ اس ماہ ميں عقد نكاح كرنا بدشگون سمجھتے تھے، ان كا كہنا تھا كہ منكوحہ عورت بالكل اسى طرح خاوند سے دور اور رك جاتى ہے جس طرح اونٹنى اونٹ سے دور رہتى اور اپنى دم مارتى ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى اس بدشگونى كو ختم اور باطل كيا.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ساتھ شوال ميں نكاح كيا، اور ميرى رخصتى بھى شوال ميں ہوئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نزديك ميرے علاوہ اور كونسى عورت زيادہ نصيبے والى تھى ؟ "
مسند احمد ( 6 / 54 ) يہ الفاظ مسند احمد كے ہيں اور امام مسلم نے كتاب النكاح ( 2 / 1039 ) حديث نمبر ( 1423 ) اور امام ترمذى نے ابواب النكاح ( 2 / 277 ) حديث نمبر ( 1099 ) ميں روايت كيا اور اسے حسن صحيح كہا ہے، اور نسائى نے كتاب النكاح باب تزويج فى شوال ( 6 / 70 ) اور ابن ماجہ نے كتاب النكاح ( 1 / 641 ) حديث نمبر ( 1990 ) ميں روايت كيا ہے. اھـ
ديكھيں: لسان العرب مادۃ شوال ( 11 / 277 ).
عرب كا شوال ميں شادى سے بدشگونى كا سبب يہ اعتقاد تھا كہ عورت اپنے خاوند كے قريب نہيں جاتى جس طرح اونٹنى اونٹ كو اپنے قريب آنے سے دم كے ساتھ روك ديتى ہے.
ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ شوال ميں دخول اور رخصتى ان لوگوں كے وہم اور اعتقاد كا رد ہے جو دونوں عيدوں كے درميان عورت سے رخصتى ناپسند كرتے ہيں كہ كہيں ان ميں جدائى ہى نہ ہو جائے، حالانكہ يہ كچھ بھى نہيں " اھـ
ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 3 / 253 ).
شوال ميں شادى كى بدشگونى والا معاملہ باطل ہے، كيونكہ بدشگونى اس بدفالى ميں شامل ہوتى ہے جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كرتے ہوئے فرمايا:
" نہ تو متعدى ہے اور نہ ہى بدفالى و بدشگونى "
ديكھيں شرح صحيح مسلم للنووى ( 14 / 218 - 219 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" بدفالى اور بدشگونى شرك ہے "
مسند احمد ( 1 / 440 ) اور ابو داود نے كتاب الطب ( 4 / 230 ) حديث نمبر ( 3910 ) اور ترمذى نے ابواب السير ( 3 / 84 - 85 ) حديث نمبر ( 1663 ) اور اسے حسن صحيح كہا ہے، اور ابن ماجہ نے كتاب الطب ( 2 / 1170 ) حديث نمبر ( 3538 ) اور امام حاكم نے المستدرك كتاب الايمان ( 1 / 17 - 18 ) ميں روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں: اس كى سند صحيح اور اس كے رواۃ ثقات ہيں ليكن بخارى و مسلم نے اسے روايت نہيں كيا اور امام ذہبى نے التلخيص ميں اس كى موافقت كى ہے.
امام نووى رحمہ اللہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں ماہ شوال ميں شادى كرنے اور شادى كروانے اور رخصتى كرنے كا استحباب پايا جاتا ہے، اور ہمارے اصحاب نے اس كا استحباب بيان كيا اور اس حديث سے استدلال كيا ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اس كلام سے دور جاہليت كى عادت كا رد كيا ہے، آج عوام كے ہاں ماہ شوال ميں شادى مكروہ اور ناپسند سمجھنے كا خيال اور وہم پايا جاتا ہے يہ باطل ہے اس كى كوئى دليل نہيں، اور يہ جاہليت كے آثار ميں سے ہے، وہ اس سے بدشگونى ليتے تھے كہ شوال كا معنى ركنا ہے.. " اھـ
ديكھيں: شرح صحيح مسلم للنووى ( 9 / 209 ).
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ