كيا قرآن مجيد كى تلاوت اور اذكار كرنے ميں زبان حركت دينا شرط ہے ؟

جب ہم كوئى ذكر ( دعاء ) كرنا چاہيں تو كيا زبان كو حركت دينا واجب ہے ؟ مثلا جب ہم بيت الخلاء جانے كى دعاء پڑھيں تو كيا ہم زبان كو حركت ديں، يا كہ ذہن ميں ہى كہنا كافى ہو گا، اور اسى طرح صبح و شام كى دعائيں پڑھتے وقت ؟

الحمد للہ :

اول:

اللہ تعالى كا ذكر مسلمان كے سب سے اشرف اور بہترين اعمال ميں شامل ہوتا ہے، اور اللہ كا ذكر صرف زبان پر ہى مقتصر نہيں، بلكہ دل، زبان اور اعضاء كے ساتھ بھى ہو گا.

شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب اللہ تعالى كے اطلاق ہو تو اس ميں ہر وہ كام شامل ہوتا ہے جس سے بندہ اللہ تعالى كا قرب حاصل كرے، چاہے وہ عقيدہ ہو يا سوچ و فكر، يا قلبى عمل ہو يا بدنى، يا پھر اللہ تعالى كى تعريف و ثنا، يا نفع مند علم كا تعلم و تعليم, وغيرہ چنانچہ يہ سب اللہ تعالى كا ذكر ہى ہيں.

ديكھيں: الرياض النضرۃ ( 245 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

اللہ كا ذكر زبان سے بھى ہوتا ہے، اور دل و اعضاء كے ساتھ بھى، اصل ذكر دل كا ہے: جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" خبردار يقينا جسم ميں ايك ايسا ٹكڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست اور تندرست ہو جاتا ہے؛ خبردار وہ دل ہے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

لہذا دل كے ذكر پر مدار ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور آپ اس كى بات مت مانيں ہم نے جس كا دل اپنے ذكر سے غافل كر ديا ہے، اور وہ اپنى خواہشات كے پيچھے لگا ہوا ہے ﴾الكھف ( 28 ).

اور پھر دل كے بغير زبان يا اعضاء كے ساتھ اللہ كا ذكر بہت ہى قاصر ہے وہ ايسے جسم كى مانند ہے جو روح كے بغير ہو.

اور دل كے ساتھ ذكر كا طريقہ يہ ہے كہ:

اللہ تعالى كى نشانيوں ميں غور فكر اور تدبر كيا جائے، اور اللہ تعالى سے محبت، اور اسكى تعظيم، اور اللہ تعالى كى طرف رجوع، اور اللہ تعالى سے ڈر اختيار كيا جائے، اور اسى پر بھروسہ اور توكل كيا جائے، اور اسى طرح باقى قلبى اعمال كيے جائيں جن كا تعلق دل سے ہے.

زبان كے ساتھ ذكر يہ ہے كہ:

زبان سے ہر وہ كلمہ نكالا جائے جس ميں اللہ تعالى كا قرب حاصل ہو؛ اور اس ميں سب سے بلند اور بہترين " لا الہ الا اللہ " كہنا ہے.

اور رہا اعضاء كے ساتھ ذكر كرنے كا تو وہ اس طرح ہے:

ہر وہ عمل سرانجام ديا جائے جس ميں اللہ تعالى كا قرب حاصل ہوتا ہو مثلا نماز ميں قيام، ركوع، سجدہ، اور جھاد فى سبيل اللہ، زكاۃ، يہ سب اللہ تعالى كے ذكر ہيں؛ كيونكہ جب آپ اسے سرانجام ديتے ہيں تو آپ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہوئے كرتے ہيں، تو اس وقت آپ اس فعل ميں اللہ تعالى كا ذكر كر رہے ہيں.

اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور آپ نماز قائم كريں، كيونكہ نماز كى ادائيگى برائى اور فحاشى كے كاموں سے روكتى ہے، اور اللہ تعالى كا ذكر بڑا ہے ﴾ العنكبوت ( 45 ).

بعض علماء كرام كا كہنا ہے:

يعنى: جب اس كے ضمن ميں اللہ تعالى كا ذكر تھا تو سب سے اكبر ہوا؛ اس آيت ميں يہ ايك قول ہے.

ديكھيں: تفسير سورۃ البقرۃ ( 2 / 167 - 168 ).

دوم:

وہ اذكار جن كا تعلق زبان سے ہے، اور وہ زبان سے ادا ہوتے ہيں، مثلا قرآن مجيد كى تلاوت، سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اور صبح و شام كى دعائيں، اور سونے، اور بيت الخلاء وغيرہ كى دعائيں.... وغيرہ ان ميں زبان كو حركت دينا ضرورى ہے، يہ زبان كو حركت ديے بغير ادا نہيں ہوتے.

ابن رشد رحمہ اللہ تعالى نے " البيان والتحصيل " ميں نقل امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے نقل كيا ہے كہ:

ان سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو نماز ميں قرآت كرتے وقت نہ تو زبان كو حركت ديتا ہے، اور نہ ہى كسى اور كو اور نہ ہى اپنے آپ كو سناتا ہے اس كا حكم كيا ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

" يہ قرآت نہيں ہے، بلكہ قرآت وہ ہے جس كے ليے زبان كو حركت دے " ا انتہى

ديكھيں: البيان و التحصيل ( 1 / 490 ).

اور كاسانى رحمہ اللہ تعالى " البدائع و الصنائع " ميں كہتے ہيں:

" زبان كو حركت ديے بغير قرآت نہيں ہوتى، كيا آپ ديكھتے نہيں قرآت پر قدرت ركھنے والا نمازى جب حروف كى ادائيگى ميں زبان كو حركت نہ دے تو اس كى نماز جائز نہيں، اور اسى طرح اگر اسے قسم اٹھائى كہ وہ قرآن كى سورۃ نہيں پڑھےگا، اور اس نے قرآن مجيد كو ديكھا اور اسے سمجھا ليكن اپنى زبان كى حركت نہ دى تو وہ حانث نہيں ہو گا، يعنى اس كى قسم نہيں ٹوٹے گى" انتھى

ديكھيں: بدائع الصنائع ( 4 / 118 ).

يعنى اگر وہ پڑھتا نہيں بلكہ صرف ديكھتا ہے تو حانث نہيں ہو گا.

اس پر يہ بھى دلالت كرتى ہے:

علماء كرام نے جنبى شخص كو زبان سے قرآن مجيد پڑھنے كى منع كيا، اور اسے مصحف كو ديكھنے كى اجازت دى ہے، اور وہ زبان كو حركت ديے بغير دل سے پڑھ سكتا ہے، جو ان دونوں ميں فرض پر دلالت كرتا ہے، اور يہ كہ زبان كو حركت نہ دينا قرآت شمار نہيں ہوتا.

ديكھيں: المجموع ( 2 / 187 - 189 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

كيا نماز ميں قرآن كى تلاوت ميں زبان كو حركت دينا واجب ہے، يا كہ دل سے ہى كافى ہے ؟

" زبان كے ساتھ قرآت كرنا ضرورى ہے، نماز ميں جب كوئى انسان دل كے ساتھ قرآت كرے تو يہ كفائت نہيں كرے گى، اور اسى طرح باقى سارى دعائيں بھى ادا نہيں ہونگى، دل ميں پڑھنے سے ادا نہيں ہونگى بلكہ زبان اور ہونٹوں كو حركت دينا ضرورى ہے؛ كيونكہ يہ اقوال ہيں، اور زبان اور ہونٹ كو حركت ديے بغير بات چيت اور اقوال كى ادائيگى نہيں ہوتى " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 156 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ