قربانی عظیم عبادت، تقرب الی اللہ کا ذریعہ، ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت اور شعائر اسلام میں سے ہے اسی اہمیت کے پیش نظر تنگ دستی کے عالم میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں اسے کبھی ترک نہیں فرمایا اس لیے ہر مسلمان چاہے مال دار ہو یا نادار، چاہیے کہ حتی الوسع اس شعیرہ کو بجا لانے کی کوشش کرے۔
قربانی گو شعیرہ اسلام ہے لیکن شعیرہ ہونا اس کے وجوب کو لازم نہیں کیونکہ شریعت میں بہت سے اعمال ایسے ہیں جو شعائر میں سے ہیں لیکن وہ فرض یا واجب نہیں البتہ ان کا بلکلیہ ترک کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔
قربانی کے سنت موکدہ ہونے کے دلائل:
١.عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، مَنْ فَعَلَهُ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا ، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلُ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ ".
(متفق عليه)
٢.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ، وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ ".
(متفق عليه)
وبوب عليه البخاري: بَابُ سُنَّةِ الْأُضْحِيَّةِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : هِيَ سُنَّةٌ وَمَعْرُوفٌ. (ذكره البخاري بصيغة الجزم وجود الحافظ سنده في الفتح:١٠/٣)
امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں احادیث پیش کر کے قربانی کو سنت قرار دیا ہے ۔
٣. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله قَالَ : شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَضْحَى بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ مِنْ مِنْبَرِهِ، وَأُتِيَ بِكَبْشٍ، فَذَبَحَهُ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَقَالَ : " بِاسْمِ الله وَالله أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي ".
(رواه أبو داود: ٢٨١٠ وهو حسن )
اگر قربانی واجب ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ان کی طرف سے کرتے جو نہیں کر سکتے تھے کیونکہ صاحب استطاعت پر اگر واجب ہے تو اسے ہر صورت خود ہی ادا کرنی ہوگی ۔
٤.عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا، جَعَلَهُ الله عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ ". قَالَ الرَّجُلُ : أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى، أَفَأُضَحِّي بِهَا ؟ قَالَ : " لَا ، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ الله عَزَّ وَجَلَّ ".
(رواه أبو داود:٢٧٨٩ والنسائي بسند حسن)
اگر قربانی واجب ہوتی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سنت عمل کے لیے واجب کو ترک کرنے کا نہ کہتے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث سے عدم وجوب پر استدلال لیا ہے:
ذكر الخبر الدال على أن الأضحية والأمر بها ليس بواجب. صحيح ابن حبان:٥٩١٤
٥. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا ". (رواه مسلم:١٩٧٧)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" دل على أنها غير واجبة ".
(مختصر المزني مع الأم:٨/٣٩١)
اسی حدیث سے امام دارمی، ابن المنذر اور ابن حزم رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی قربانی کے سنت ہونے پر دلیل لی ہے۔ (سنن الدارمي:٢٩٥٣، الإقناع:١/٣٧٦، المحلى:٧/٣٥٥)
یہاں ارادہ کو قربانی کرنے پر معلق کیا گیا ہے اور بعض اہل علم رد کرتے ہوئے جس ارادے کی مثالیں دیتے ہیں اس میں ارادے کا تعلق شرائط پر ہوتا ہے نہ کہ اصل فعل پر۔ دیکھیے: الحاوي الكبير للماوردي:١٥/ ٧٢ ، فيض القدير للمناوي:١/ ٣٦٣.
٦.سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے قربانی اس لیے نہ کی کہ: كراهية أن يقتدى بهما. (السنن الكبرى:٩/ ٢٦٥، معرفة السنن والآثار للبيهقي:١٨٨٩٣، حافظ ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ مسند الفاروق:١/٥٣٧)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كراهية أن يقتدى بهما؛ ليظن من رآهما أنها سنة. الأم:٣/ ٥٨٤.
روایت کے الفاظ اور امام شافعی کی وضاحت کے بعد بعض اہل علم کا غیر مناسب تاویلات کے ساتھ اسے رد کر دینا کسی بھی طرح درست نہیں ۔
٧. ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إني لأدع الأضحى وإني لموسر، مخافة أن يرى جيراني أنه حتم علي . مصنف عبد الرزاق:٤/ ٣٨٣، السنن الكبرى للبيهقي:۔٩/ ٢٦٥.
٨ .اسی طرح سیدنا ابن عباس،بلال بن رباح، ابن عمر رضی اللہ عنہمم بھی قربانی کی فرضیت کے قائل نہیں تھے۔ (السنن الكبرى للبيهقي:٩/٢٦٥، المحلى:٧/٣٨٥)
غرض کسی ایک صحابی یا تابعی سے قربانی کی فرضیت ثابت نہیں بلکہ سنت موکدہ اور شعیرہ ہی ہے جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لا يصح عن أحد من الصحابة أن الأضحية واجبة. المحلى:٦/١٠.
یہی بات امام شاطبی بھی فرماتے ہیں. الإعتصام: ٢/ ٦٠٢.
امام امیر صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأفعال الصحابة دالة أنها سنة. سبل السلام:٢/٥٣٢
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الضحية سنة وليست بواجبة، ولا أحب ممن قوي على ثمنها، أن يتركها. (المؤطأ:٢/٣٤)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الضحايا سنة لا أحب تركها . (الأم:٣/٥٧٧)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کیا قربانی فرض ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
لا أقول: فريضة، أو كلمة نحوها، ولكنه يستحب. (مسائل أحمد برواية أبي داود:١٦٢٨)
حنبلی فقہا نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے جیسے امام ابن ضویان حنبلی فرماتے ہیں:
هذا عندنا معاشر الحنابلة أنها سنة. (منار السبيل:١/٢٧١)
شیخ عبد اللہ بسام نے بھی ائمہ ثلاثہ کی طرف سنت اور عدم وجوب کا قول منسوب کیا ہے۔ نيل المآرب:٢/٢٨٤.
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن الأضحية ليست بواجبة ولكنها سنة من سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستحب أن يعمل بها وهو قول سفيان الثوري وابن المبارك. سنن الترمذي:١٥٠٦۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والأضحية سنة، لا يستحب تركها لمن يقدر عليها. (المغني:٩/٤٣٥)
امام مجد ابن تیمیہ عبدالسلام بھی "منتقى الأخبار" میں قربانی کے عدم وجوب کے قائل ہیں، اسی طرح امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتب میں کسی جگہ قربانی کو واجب قرار نہیں دیا۔
موجودہ اور ماضی قریب کے کبار علماء بھی قربانی کے وجوب کے قائل نہیں بلکہ تاکیدی سنت اور شعیرہ ہی فرماتے ہیں:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سنة مؤكدة تشرع للرجل والمرأة وتجزئ عن الرجل وأهل بيته، وعن المرأة وأهل بيتها. مجموع الفتاوى:١٨/ ٣٨.
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرما تے ہیں:
"الأضحية سنة مؤكدة للقادر عليها، فيضحي الإنسان عن نفسه وأهل بيته"۔ مجموع فتاوى و رسائل: ٢٥/ ١٠.
اسی طرح امام امیر صنعانی، شیخ سید سابق فقہ السنہ میں، فتاوی نذیریہ میں جب یہ فتوی لکھا گیا تو اس وقت کے دس سے زائد کبار علماء نے اس پر دستخط کیے اور " نعم الجواب " قرار دیا۔ ان میں شیخ الکل نذیر حسین دہلوی بھی تھے، شیخ عبد اللہ بسام، شیخ عبد الرحمن مبارکپوری رحمهم الله أجمعين فتاوی میں، مفتی عبید اللہ خان عفیف، مفتی عبد الستار حماد وغيرهم حفظهم الله أجمعين.
چند دلائل کا مختصر تجزیہ:
١.( فصل لربك وانحر ) (الكوثر:١)
اصول فقہ کا مسلمہ اصول ہے کہ امر اس وقت وجوب کا فائدہ دیتا ہے جسے واجب قرار دیا جا رہا ہے اس میں اس کی دلالت قطعی ہو، احتمال سے کسی چیز کا وجوب ثابت کرنا درست نہیں ۔
اس آیت کے معنی میں سلف کے بہت سے اقوال ہیں جوکہ تفسیر طبری وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں، امام طبری تمام اقوال ذکر کر کے فرماتے ہیں:
وأولى هذه الأقوال عندي بالصواب: قول من قال: معنى ذلك: فاجعل صلاتك كلها لربك دون ما سواه من الأنداد والآلهة، وكذلك نحرك اجعله له دون الأوثان..... تفسير الطبري:١١/٧٤٧.
یعنی اخلاص مراد ہے اس کی تائید دوسری آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے:
﴿ قُل إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ وَمَماتي لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ ﴾
[الأنعام: ١٦٢]
جیسے یہاں اخلاص اور للہیت مراد ہے وہاں بھی ایسا ہی ہے۔
والله أعلم
٢.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ". رواه ابن ماجه في السنن:٣١٢٣.
امام احمد اور دوسرے ائمہ نے اسے منکر قرار دیا ہے ، عبد اللہ بن عیاش القتبانی منکر الحدیث ہے۔ دیکھیے: تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي:٣/ ٥٦٧، الفروسية لابن القيم: ص ٢٠٠.
ائمہ نے اس کے موقوف ہونے کو درست اور صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیے: نصب الراية للزيلعي:٤/ ٢٠٧.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرما تے ہیں:
اختلف في رفعه و وقفه، والموقوف أشبه بالصواب، قاله الطحاوي وغيره، ومع ذلك فليس صريحا في الإيجاب . فتح الباري:١٠/ ٣.
اگر یہ روایت مرفوع ثابت بھی ہو تو یہ وجوب کا صیغہ نہیں اور نہ اس سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔
اس میں فقط تاکید ہے جیسا کہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ : " مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ يَعْنِي الثُّومَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا ". رواه البخاري:٧٥٣.
صحیح مسلم:٥٦٥ میں تو بہت صراحت ہے:
فَقَالَ النَّاسُ : حُرِّمَتْ، حُرِّمَتْ. فَبَلَغَ ذَاكَ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ الله لِي، وَلَكِنَّهَا شَجَرَةٌ أَكْرَهُ رِيحَهَا .
اس روایت سے واضح ہوا کہ ایسا سیاق وجوب کو لازم نہیں کرتا بلکہ تاکیدی انداز ہے۔
دیکھیے التحقيق لابن الجوزي و فتاوى محمدیہ از مفتی عبید اللہ خان عفیف حفظہ اللہ
٣. عن مِخْنَف بْن سُلَيْمٍ ، قَالَ : وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ قَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ ؟ هَذِهِ الَّتِي يَقُولُ النَّاسُ : الرَّجَبِيَّةُ ".
قَالَ أَبُو دَاوُدَ : الْعَتِيرَةُ مَنْسُوخَةٌ، هَذَا خَبَرٌ مَنْسُوخٌ. رواه أبو داود:٢٧٨٨.
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے "عامر ابو رملہ" مجھول ہے ۔ امام خطابی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
آخر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول سے اپنی معروضات مکمل کرتا ہوں،آپ فرماتے ہیں:
ولو زعمنا أن الضحايا واجبة ما أجزأ أهل بيت أن يضحوا إلا عن كل إنسان بشاة، أو عن كل سبعة بجزور، ولكنها لما كانت غير فرض كان الرجل إذا ضحى في بيته كانت قد وقعت ثَم اسم ضحية ولم تعطل، وكان من ترك ذلك من أهله لم يترك فرضا. الأم:٣/ ٥٧٧.
والله أعلم بالصواب وعلمه أتم
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ