كيا ميں اپنے منگيتر كے ساتھ ٹيلى فون كے ذريعہ بات چيت كر سكتى ہوں، برائے مہربانى اس كا حكم معلوم كرنے ميں ميرا تعاون فرمائيں كيونكہ ميرے والدين كو اس كا علم نہيں ؟
الحمد للہ:
ايسا كرنا جائز نہيں، ليكن اگر دونوں اطراف ثقہ ہوں اور ايك دوسرے كے متعلق بھروسہ ہو اور والدين اس شادى پر راضى ہوں اور اس شادى ميں كوئى مانع نہ ہوں تو پھر عام زندگى كے معاملات كے متعلق بات چيت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر انہيں علم ہو كہ ان كے والدين اس پر راضى نہيں تو پھر اس حالت ميں ان دونوں كو بات چيت كرنا جائز نہيں.
الشيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ.
منگيتر لڑكى اور لڑكا دونوں ہى ايك دوسرے كے ليے اجنبى ہيں، اور منگيتر لڑكى كے ساتھ بات چيت كرنا بالكل ايك اجنبى عورت كے ساتھ بات چيت كرنے كے مترادف ہے، اس ليے يہ بات چيت صرف ضرورت كى حد تك ہى ہونى چاہيے اور اچھے انداز ميں ہو اس سے تجاوز نہ كيا جائے مثلا شادى كے بعد اخراجات كے متعلقہ امور ميں بات چيت جو ان كى شادى ميں معاون ثابت ہو سكتى ہو اور اس بات چيت ميں بھى انہيں درج ذيل امور كا خيال ركھنا ہو گا:
1 ـ لڑكى اپنے ولى كى موافقت سے بات چيت كرے اور اس سے شادى ميں كوئى ممانعت نہ ہو.
2 ـ بات چيت ميں كوئى ايسى كلام نہ كى جائے جو شہوت انگيزى كا باعث بنے، يا فتنہ و خرابى كا باعث ہو.
3 ـ منگيتر جو كہنا چاہتا ہے وہ كسى اور طريقہ مثلا اپنى بہن يا لڑكى كے بھائى يا خط وغيرہ كے ذريعہ پيغام پہنچانے والا كوئى نہ ہو تو پھر وہ خود كر سكتا ہے.
4 ـ ضرورت سے زيادہ بات چيت نہ كى جائے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم.
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ