سائل کا کہنا ہے کہ حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی قبرکی جگہ کے بارہ میں لوگوں کی راۓ بہت ہی زيادہ ہیں ، اورکیا صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کی قبور کے علم سے مسلمانوں کو کوئ فائدہ ہے ؟
اورسر کے متعلق بھی مختلف اقوال ملتے ہیں ، کچھ تویہ کہتے ہیں کہ وہ شام میں ہے ، اوربعض کا یہ کہنا ہے کہ ان کا سر عراق میں ہے ، اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ وہ مصر میں ہے ، اورصحیح بات تو یہ ہے کہ جو مصرمیں ہے وہ نہ تو ان کی قبر اور نہ ہی ان کا سر ہے بلکہ یہ ایک فاش غلطی ہے ۔
اہل علم نے اس کے متعلق کتابیں لکھیں ہیں جن میں یہ بیان کیا گيا ہے کہ مصر میں ان کی کوئ چيز بھی نہیں اور نہ ہی وہاں جانے کی کوئ وجہ ہی بنتی ہے ، ظن غالب یہی ہے کہ وہ شام میں ہے اس لیے کہ ان کا سر یزید ابن معاویہ کے پاس لےجایا گيا تھا جوکہ شام میں تھا تویہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے مصر لے جایا گيا تھا ، یاتو وہ شام میں ہی دفن کیا گيا اوریاپھر عراق میں جہاں ان کا جسم تھا واپس کردیا گيا ۔
بہرحال لوگوں کو اس بات کی کوئ ضرورت نہیں کہ وہ یہ معلوم کرتے پھریں کہ وہ دفن کہاں کیے گۓ اور کہاں ہیں ، مشروع تو یہ ہے کہ وہ ان کے لیے دعاۓ مغفرت اوررحمت کی جاۓ ، اللہ تعالی ان کے گناہ معاف فرماۓ اوران سے راضی ہو وہ مظلوم ومقتول تھے ۔
ان کےلیے دعاۓ مغفرت ورحمت کرنی چاہیے اوران کے لیےاللہ تعالی سے خیرکثير کی امید رکھنی چاہیے ، اور پھروہ اوران کے بھائ دونوں ( یعنی حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنھما ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جنتی نواجوانوں کے سردار ہیں ۔
اب جس شخص کوان کی قبر کا علم ہے وہ اس کے لیے دعا مغفرت کرتا ہے جس طرح کہ دوسری قبروں کی زیارت کی جاتی ہے تووہ بھی اس کے بارہ میں بغیر کسی غلو اورعبادت کے دعا کرتا ہے توکوئ حرج نہیں ۔
اسی طرح دوسرے فوت شدگان کی ان سے بھی سفارش طلب جائز نہیں اس لیے کہ میت سے کچھ مانگا نہیں جاسکتا بلکہ اگروہ مسلمان ہوتو اس کے لیے دعاۓ مغفرت کی جاتی ہے کونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( قبروں کی زيارت کیا کرو اس لیے کہ وہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں ) ۔
اب جوبھی حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما یا کسی دوسرے مسلمان کی قبر پرصرف اس لیے جاتا ہے کہ ان کے لیے دعاۓ مغفرت ورحم کی جاۓ تویہ سنت ہے ، لیکن قبروں کی زيارت کا اگر یہ مقصدہو کہ وہاں جاکر اس سے مدد واستعانت طلب کی جاۓ اوراس سے سفارش طلب کی جاۓ تویہ غیرشرعی فعل بلکہ شرک اکبر ہے ۔
اوراسی طرح قبر پرنہ توکوئ عمارت مسجد و قبہ وغیرہ تعمیر کرنا جائزہے اورنہ ہی چراغان کرنا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اللہ تعالی یھود و نصاری پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنا لیا ) صحیح بخاری و مسلم ۔
اوراسی طرح صحیح میں حدیث ہے کہ جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ رسلم نے قبروں کوپکا کرنے اوران پربیٹھنے اوران پر عمارت کرنے سے منع فرمایا ۔
تواب اس حدیث کی بنا پر نہ تو قبر پر کوئ عمارت اور قبہ بنانا جائز ہے اورنہ ہی اس پرخوشبولگانا یا چراغاں کرنا اورنہ ہی کپڑے اورغلاف چڑھانا تویہ سب کچھ ممنوع اورشرک کے وسائل ہیں ۔
اور اسی طرح قبرکے پاس نماز بھی نہیں پڑھی جاۓ گی اس لیے کہ جندب بن عبداللہ بجلی رضي اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نقل کیا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہوشیار رہو تم سے پہلے لوگوں نے انباء اورصالحین کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا توتم قبروں کومساجد نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ) صحیح مسلم ۔
یہ حدیث اس پردلالت کرتی ہے کہ قبروں کے پاس نہ تو نماز پڑھی جاۓ اور نہ ہوانہیں مسجد بنایا جاۓ ، اس لیے کہ یہ شرک کے وسائل اور اسی طرح غیراللہ کی عبادت و دعا اور ان سے استعانت اور ان کے لیے نذرو نیاز اور ان کی قبروں کوباعث برکت سمجھتے ہوۓ انہیں چھونا یہ سب ایسے کام ہیں جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اوربچنے کا کہا ہے ۔
صرف قبروں کی شرع طریقہ سے ہی زیارت کی جا سکتی ہے جو کہ بغیر کسی سفرکے ہواور صرف اس کے لیے دعاۓ مغفرت رحم تک محدود رہے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے اورصراط مستقیم کی راہنمائ کرنے والا ہے .
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ