طلاق كے بعد خاوند اور بيوى كا اسلام قبول كرنا اور بچى كے حقوق

مرد اور عورت كافر تھے، عورت كو پتہ چلا كہ وہ حاملہ ہے اور مرد نے اس سے حمل ضائع كرنے كا مطالبہ كيا ليكن عورت نے انكار كر ديا، اور اس كى تجاويز پر عمل نہ كيا حتى كہ وضع حمل ہوا تو وہ بچى تھى، پھر مرد اور عورت دونوں ہى مسلمان ہو گئے، ليكن ان دونوں ميں طلاق ہو چكى تھى.
كيا باپ كو ماں سے زيادہ حق ہے، حالانكہ وہ تو اس حمل كو ضائع كرنا چاہتا تھا ؟

الحمد للہ:

اول:

ہم آپ دونوں كى ہدايت و اسلام قبول كرنے پر اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں، اور بندے پر اللہ عزوجل كى سب عظيم نعمت يہى ہے كہ وہ اسلام قبول كر لے، كيونكہ و دنيا و آخرت كى كاميابى اسى ميں ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب كرے جو اسے پسند ہيں اور جن سے اللہ راضى ہوتا ہے، اور آپ كو دين اسلام پر ثابت قدم ركھے.

دوم:

آپ نے حمل ساقط كرانے سے انكار كر كے بہت اچھا كيا كيونكہ حمل ساقط كروانا معصيت و نافرمانى ہے، چاہے وہ بچہ ميں روح ڈالى جانے سے قبل ساقط كروايا جائے يا روح ڈالے جانے كے بعد، اگرچہ روح ڈالے جانے كے بعد حمل ساقط كرانا زيادہ گناہ كا باعث ہے.

اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 40269 ) اور ( 42321 ) كے جوابات ميں گزر چكا ہے.

سوم:

جب مرد اپنى بيوى كو طلاق دے اور ان كى عليحدگى ہو جائے اور ان كا كوئى بچہ بھى ہو تو شريعت كا مقرر كردہ فيصلہ ہے كہ اس بچے كى تربيت كا باپ سے زيادہ ماں كو حق ہے، ليكن اگر اس ميں كوئى مانع ہو مثلا ماں اور شادى كر لے يا قلت دين كى مالك ہو يا پھر اس كى ديكھ بھال كرنے ميں كوتاہى كرتى ہو تو پھر نہيں.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 8189 ) اور ( 20705 ) اور ( 21516 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے.

چہارم:

باپ كا بيوى كو حمل ساقط كرانے كى برائى سے اس كا ثابت شدہ حق مثلا نسب اور بچے كى ديكھ بھال اور اس كا خرچ برداشت كرنا اور اس كا نام ركھنا، اور ماں كى پرورش ميں ہونے كى مدت ميں وقتا فوقتا بچے كو ملنا يہ سب كچھ ثابت نہيں ہو گا، اور اسى طرح اگر ماں كى حق پرورش ميں كوئى مانع پايا جاتا ہو تو باپ كو حق پرورش حاصل ہو گا.

ہم اميد كرتے ہيں كہ اللہ عزوجل نے اس كا يہ گناہ اسلام قبول كرنے كى وجہ سے معاف كر ديا ہے، كيونكہ دين اسلام اپنے سے قبل سب گناہوں كا كفارہ بن كر انہيں ختم كر ديتا ہے.

پنجم:

سوال كرنے والى كا يہ قول:

" كيا اب بھى باپ كو ماں سے زيادہ حق حاصل ہے "

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ باپ كا حق ہميشہ ماں سے زيادہ نہيں ہوتا، بلكہ ماں كا حق پرورش باپ كے حق پرمقدم ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے، اور نيكى و حسن سلوك ميں بھى ماں كا حق باپ كے حق پر مقدم ہے، يعنى ماں كے ساتھ باپ سے زيادہ حسن سلوك كيا جائيگا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سے سب سے زيادہ حسن صحبت كے اعتبار سے كون زيادہ حقدار ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى ماں .

اس نے كہا: پھر كون ؟

آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى ماں.

اس نے كہا: پھر كون ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرى ماں.

اس نے كہا: پھر كون ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرا باپ "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5971 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى ترغيب ہے، اور ان ميں سے سب سے زيادہ حسن سلوك ماں كے ساتھ ہوگا، اس كے بعد باپ كے ساتھ، اور پھر اس كے قريب تر كے ساتھ.

علماء كرام كہتے ہيں:

" ماں كو مقدم كرنے كا سبب يہ ہے كہ ماں بچے كے سلسلہ ميں زيادہ تكليف برادشت كرتى ہے، اور اس پر شفقت كرتى اور اس كى خدمت بجا لاتى ہے، ماں حمل ميں بھى مشقت اٹھاتى اور پھر ولادت كى مشكلات بھى برداشت كرتى ہے، پھر اسے دودھ پلاتى اور پھر اس كى تربيت و پرورش كرتى اور تيمار دارى وغيرہ بھى كرتى ہے.

حارث المحاربى نے علماء كرام كا اجماع نقل كيا ہے كہ حسن سلوك ميں باپ پرماں كو مقدم كيا جائيگا، اور قاضى عياض رحمہ اللہ نے اس ميں اختلاف ذكر كيا ہے.

اور جمہور علماء كہے ہيں كہ اس ميں تفصيل ہے: اور بعض علماء اس كو برابر قرار ديتے ہيں، ان كا كہنا ہے: بعض نے اسے امام مالك رحمہ اللہ كى طرف منسوب كيا ہے.

اور صحيح پہلا قول ہى ہے يعنى ماں كو مقدم كيا جائيگا كيونكہ مندرجہ بالا حديث ميں اس كى صراحت پائى جاتى ہے " انتہى

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ