خاوند سے دو ہفتے قبل مسلمان ہوئى كيا نكاح فسخ ہو جائيگا

ہم دونوں نئے مسلمان ہيں، ہميں كہا گيا كہ اسلام قبول كرنے كے بعد ہمارى شادى باطل ہو چكى ہے، ميں سولہ فرورى كو مسلمان ہوئى ليكن اس وقت ميرے خاوند نے مسلمان ہونے سے انكار كر ديا تھا، ميں نے اسے چھوڑ ديا اور اپنى ايك سہيلى كے ہاں جا كر رہنے لگى.
دو مارچ كو ميرا خاوند بھى مسلمان ہو گيا تو ميں واپس خاوند كے پاس آ گئى، مجھے كہا گيا كہ شريعت اسلاميہ كے مطابق خاوند مسلمان نہ ہو تو ہمارى شادى ختم ہو گئى، اب ہمارے ليے ضرورى ہے كہ جب تك شريعت اسلاميہ كے مطابق نيا نكاح نہ ہو جائے ہم ايك گھر ميں نہيں رہ سكتے.
كيا اس كلام كى كوئى حقيقت ہے، برائے مہربانى جواب جلد ديں كيونكہ ميں گناہ اور اللہ كى معصيت ميں نہيں رہنا چاہتى ؟

الحمد للہ:

آپ كو جو كچھ كہا گيا ہے وہ صحيح نہيں، كيونكہ جب خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك پہلے مسلمان ہو جائے اور پھر عورت كى عدت ختم ہونے سے قبل دوسرا بھى مسلمان ہو جائے تو وہ اپنے پہلے نكاح پر ہى ہيں ( عورت كى عدت تين حيض ہے، اگر اسے حيض آتا ہے، اور اگر حيض نہيں آتا تو تين ماہ ہو گى، اور اگر وہ حاملہ ہے تو اس كى عدت وضح حمل ہو گى )، امام شافعى امام احمد كا مسلك يہى ہے، اور سوال ميں جو صورت بيان ہوئى ہے اس ميں امام مالك رحمہ اللہ كا بھى مسلك يہى ہے كہ عورت خاوند سے قبل مسلمان ہوئى ہے اس طرح كے شريعت اسلاميہ ميں بہت سارے واقعات ملتے ہيں.

ان واقعات ميں صفوان بن اميہ كى بيوى كا قصہ بھى شامل ہے جو فتح مكہ كے موقع پر مسلمان ہو گئى تھى، اور پھر اس كے ايك ماہ بعد صفوان بھى مسلمان ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں عليحدگى نہيں كرائى تھى، اور نہ ہى انہيں تجديد نكاح كا حكم ديا تھا، بلكہ وہ صفوان كے پاس پہلے نكاح ميں ہى رہى، ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں اس حديث كى شہرت اس كى سند سے زيادہ قوى ہے " اھـ

ليكن اگر ان ميں دوسرا عورت كى عدت ختم ہونے كے بعد اسلام قبول كرے تو اس ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے اور صحيح يہى ہے كہ اگر وہ آپس ميں اكٹھا رہنے پر متفق ہوں تو پہلا عقد نكاح ہى كافى ہے ليكن شرط يہ ہے كہ عورت نے ابھى دوسرے مرد سے شادى نہ كر لى ہو، تو اس صورت ميں ان كا پہلے نكاح ميں ہى اكٹھا رہنا جائز ہے اور تجديد نكاح كى ضرورت نہيں ہو گى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا اختيار يہى ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے، انہوں نے ابو داود كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيٹى زينب رضى اللہ تعالى عنہا كو ان كے خاوند ابو العاص كے پہلے نكاح ميں ہى واپس كر ديا تھا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2240 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1143 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2019 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابو العاص رضى اللہ تعالى نے سورۃ الممتحنۃ كى آيات نازل ہونے كے دو برس بعد اسلم قبول كيا تھا جن ميں بيان كيا گيا ہے كہ مسلمان عورتيں مشركوں كے ليے حرام ہيں، اور ظاہر ہے كہ اس مدت ميں تو زينب رضى اللہ تعالى عنہا كى عدت ختم ہو چكى تھى، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلے نكاح ميں ہى انہيں واپس كر ديا تھا.

حاصل يہ ہوا كہ آپ دونوں اپنے پہلے نكاح پر ہى ہيں اور تجديد نكاح كى كوئى ضرورت نہيں. واللہ تعالى اعلم.

مزيد آپ زاد المعاد ( 5 / 133 - 140 ) اور المغنى ( 10 / 8 - 10 ) اور الشرح الممتع ( 10 / 288 - 291 ) كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ