كيا راحت حاصل كرنے كے ليے لڑنے والى دوسرى بيوى كو طلاق دينا افضل ہے

كيا خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنى ( دوسرى ) بيوى كو طلاق دے دے حالانكہ اس نے كوئى غلط كام بھى نہيں كيا ؟
اس شخص نے ديكھا كہ اس كے اور اس كى اس بيوى كے مابين مشترك اور متفق امور نہيں پائے جاتے، اور غالبا وہ اس كے ساتھ جھگڑتى رہتى ہے اور وہ اس كى كچھ اشياء ناپسند كرتا ہے جو كہ غلطى تو نہيں، اور وہ اس سے بغير قصد و ارادہ كے صادر ہو جاتى ہيں.
كيا يہ بہتر نہيں كہ وہ اس عورت كو آزاد كر دے تا كہ وہ كسى دوسرے شخص سے شادى كر لے جس سے وہ محبت كرتى ہو، اور اسے عزت دے اس كے بدلے كہ وہ اپنے پاس اس حالت ميں ركھے كہ وہ حالت مثالى ثابت نہ ہو ؟

الحمد للہ:

مرد پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے مابين عدل و انصاف كرے، اور ان كے متعلق اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے، اور عورت كو بھى چاہيے كہ وہ اپنى غيرت كا مقابلہ كرے، اور اپنے نفس كے ساتھ جھاد كرے، اور اپنے خاوند كو دوسرى بيوى ہونے كى سبب اذيت سے دوچار مت كرے.

اصل ميں طلاق دينا مكروہ ہے، اور اگر كہا جائے كہ يہ حرام ہے تو كوئى بعيد نہيں، اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا ايلاء كرنے والوں كے متعلق فرمان ہے:

{ اگر وہ لوٹ آئيں تو اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے، اور اگر طلاق كا ارادہ كريں تو اللہ سبحانہ و تعالى سننے والا جاننے والا ہے }.

اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ آيت دو ناموں " سميع اور عليم " سے ختم كى ہے، جب وہ طلاق كا عزم كريں سے محسوس ہوتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كو يہ پسند نہيں، كيونكہ جماع نہ كرنے كى قسم اٹھانے كے بعد واپس پلٹنے ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا ہے:

يقينا اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے.

يہ واضح ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى پسند كرتا ہے كہ يہ ايلاء كرنے والا شخص واپس پلٹ آئے، ليكن جس نے طلاق كا عزم كيا ت واس سے محسوس ہوتا ہے كہ اللہ تعالى كو يہ پسند نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے بعد فرمايا:

يقينا اللہ تعالى سننے والا جاننے والا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ:

" حلال ميں سے مبغوض ترين چيز اللہ كے ہاں طلاق ہے "

يہ حديث صحيح نہيں ليكن اس كا معنى صحيح ہے، كہ اللہ سبحانہ و تعالى طلاق كو ناپسند فرماتا ہے، ليكن بندوں پر وسعت كرتے ہوئے اس نے اسے حرام نہيں كيا، اس ليے اگر كوئى شرعى سبب ہو يا پھر طلاق كا كوئى عادى سبب تو يہ جائز ہو گى.

اور عورت ك وركھنے كے اعتبار سے اگر تو عورت كو اپنے عقد نكاح ميں ركھنے ميں كوئى شرعى ممانعت كا باعث بنتى ہو جسے طلاق كے بغير دور كرنا ممكن نہيں تو پھر خاوند اسے طلاق دےگا.

مثلا اگر عورت ناقص دين ہو يعنى دين پر عمل نہ كرتى ہو، يا پھر ناقص العقل ہو، اور خاوند اس كى اصلاح كرنے سے عاجز آ جائے تو يہاں ہم يہ كہيں گے كہ:

افضل ہے كہ اسے طلاق دے دو، ليكن بغير كسى شرعى سبب كے يا پھر عادى سبب كے باعث طلاق نہ دينا ہى افضل ہے بلكہ اس صورت ميں تو طلاق دينا مكروہ ہوگا.

ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوج ابن عثيمين ( 113 ).

سوال ميں مذكورہ عورت كے ليے اگر خاوند كے ساتھ حسن معاشرت سے رہنا ممكن ہے، اور ہر ايك برداشت كر سكتا ہے كہ دوسرے كى جانب سے غصہ كو برداشت كرے جو كہ طويل نہ ہو تو پھر اس كے ليے اور اس كى اولاد كے ليے افضل و بہتر يہى ہے كہ وہ اكٹھے رہيں.

اور اگر كسى علت كى بنا پر چاہے وہ دونوں ميں پائى جاتى ہو يا پھر كسى ايك ميں علت ہو تو بہتر طريقہ سے اكٹھے رہنا ممكن نہ ہو تو اس عورت كے ليے يا پھر مرد كے ليے يا دووں كے ليے افضل يہى ہے كہ وہ عليحدگى اختيار كر ليں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى اپنى وسعت سے ہر ايك كو غنى كر ديگا }النساء ( 130 ).

ہو سكتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى اس عورت كو افضل خاوند دے كر غنى كر دے جو حسن معاشرت ميں اس سے بھى بہتر اور اچھا ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى پسند اور رضا والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ