کسی مخصوص شخص کو زکاۃ پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی تو عمداً کسی اور کو دے دی

 

 

 

سوال: ایک آدمی کو کسی مخصوص شخص کو زکاۃ پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اسے نام لیکر بتلایا گیا کہ یہ فلاں فلاں شخص کو دینی ہے، تو اس نے ماسوائے ایک شخص کے سب لوگوں کو زکاۃ پہنچا دی، اور اس ایک شخص کا حصہ اس سے بھی زیادہ ضرورت مند غریب کو دے دیا، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟

 

الحمد للہ:

 

موکل کی طرف سے دی جانے والی ذمہ داری کو وکیل بعینہ مکمل کرے گا جیسے موکل نے اپنے وکیل کے ذمہ لگائی تھی؛ کیونکہ وکیل اپنے موکل کی اجازت کے بغیر اس میں کچھ بھی رد و بدل نہیں کر سکتا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ ادا کرنے والے شخص نے اپنے وکیل کو کہا: یہ مال فلاں کو پہنچا دو، تو اس صورت میں کسی اور کو نہیں دے سکتا، چاہے کوئی اور اس سے زیادہ محتاج ہی کیوں نہ ہو۔۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (18/433)

جب یہ بات ثابت ہو گئی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: کیا وکیل  اپنی مرضی سے کیے ہوئے تصرفات کا ضامن بھی ہوگا؟

اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے:

کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ: وکیل ضامن نہیں ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے  کوئی شخص کسی مخصوص آدمی کو صدقہ دینے کی نذر مانے تو وہ کسی اور کو بھی دے سکتا ہے۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ: وکیل ضامن ہوگا، اور اسے ابن عابدین نے راجح قرار دیا ہے، اور اس کی توجیہ یہ بیان کی کہ:  "وکیل اپنے موکل کی ہدایات کے مطابق ہی تصرف کر سکتا ہے، چونکہ یہاں موکل نے کسی خاص شخص کو زکاۃ دینے کی ذمہ داری اپنے وکیل کو سونپی ہے، لہذا  اس صورت میں وکیل کے پاس کسی اور کو دینے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ مسئلہ بالکل ایسے ہی جیسے موکل وصیت کر کے جائے کہ یہ مال زید کیلئے ہے، تو اب وکیل کسی اور کو نہیں دے سکتا" انتہی
دیکھیں: "حاشیہ ابن عابدین" (2/269)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (14/272) میں ہے کہ:
"وکیل کی یہ ذمہ داری ہے کہ  اپنے موکل کی تمام ہدایات پر لازمی عمل کرے، چنانچہ غریب لوگوں میں نقدی رقم تقسیم کرے ان کیلئے سامان خرید کر انہیں مت پہنچائے؛ کیونکہ وکیل کو یہ ذمہ داری ہی نہیں سونپی گئی، اس اعتبار سے جو کچھ آپ نے کیا ہے آپ اس کے ضامن ہیں، لہذا غریبوں کو ان کی رقم ادا کریں، تا کہ موکل کی تعلیمات پر عمل ہو سکے اور آپ بری الذمہ ہو جائیں، آپ نے غریبوں کو جو کچھ دیا ہے اس کا اجر آپ کو الگ سے ملے گا" انتہی

 آپ نے اپنے اختیارات کو وسعت دیکر جو عمل کیا ہے اسے فقہائے کرام کی اصطلاح میں "تصرف الفضولی"[یعنی: اپنے اختیارات کو بڑھا کر موکل کی اجازت کے بغیر اضافی تصرفات کرنا] کہلاتا ہے، اور اس کا حکم متعدد اہل علم کے ہاں یہ ہے کہ موکل یا صاحب اختیار شخص اسے نافذ العمل قرار دے دے تو یہ درست متصور ہوگا، اور اگر وہ اسے نافذ العمل قرار نہ دے تو درست نہیں ہوگا۔

مزید کیلئے سوال نمبر: (26770)کا جواب ملاحظہ کریں۔

مندرجہ بالا تفصیلات کے بعد:

آپ موکل کی طرف سے معین کردہ شخص کو اس کا حصہ  پہنچائیں، تاہم اگر آپ موکل کو اپنی کار گزاری سنائیں اور وہ اسے نافذ العمل رہنے دے تو اس صورت میں آپ کو مذکورہ شخص تک اس کا حصہ پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے۔

واللہ اعلم.

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ