داعی کی بیوی کی پریشانی جس کا خاونداس کا خیال نہیں رکھتا

 

 

 

 

الحمدللہ میں نے ایک دینی شخص سے شادی کی اورشرط یہ تھی کہ میں اپنی شرعی تعلیم مکمل کروں گی ، لیکن وہ شادی کےبعد کہنے لگا کہ اسلامی یونورسٹی امریکہ کی مقبولیت نہیں ( میرے لیے یہ کوئ اہم نہیں اس لیے کہ وہ اسلامی تعلیم دیتے ہیں ) اورمیرے خاوند تعلیم کا خرچہ ایسی یونورسٹی میں برداشت کرنے پرمصرہیں جومعترف اورمقبول ہو جس کی سند مانی جاتی ہو۔
میں ان شاءاللہ اب چارسال بعد اپنے ملک جاؤں گی میں نے سوچا ہے کہ اب اپنی تعلیم مکمل کرنے سے قبل اس کے ساتھ نہیں آ‎ؤں گی یا پھرکم ازکم ان شاءاللہ قرآن مجید کی سند حاصل کرنے کے بغیر نہیں آؤ‎ں گي ۔
میرے اور خاوند کےلیے آپ کی نصیحت کیا ہے ، میں چاہتی ہوں کہ وہ یہ خط پڑھے اوریہ بھی آپ کو علم ہونا چاہیۓ کہ میرے خاوند کےپاس اتنا وقت نہیں کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کسی شرعی کتاب کوپڑھا جاسکے ۔
میرا خاوند گھرسے باہر تودعوت و تبلیغ میں بہت فعال ہے لیکن گھرمیں اس کی حالت ایسی نہیں ، بلکہ جب وہ گھرمیں داخل ہوتا ہے تولائبریری میں بیٹھ کردوازہ بند کرلیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ لوگوں کی مصلحت گھرسے زیادہ اہم ہے ، حالانکہ میں اس کی محتاج ہوں ، اوروہ بچوں کوبھی ان کا خیال کرنے کے لیے میرے پاس سے لے جاتا ہے جس کی بنا پرمیں بیماری کا شکار ہوچکی ہوں ( ہر حال میں اللہ تعالی کا شکرہے ) اللہ تعالی جوکہ عرش عظیم کا ربہ ہے سے شفایابی کی دعا کرتی ہوں ۔
اس کی ان غیرصحیح عادات کی بنا پرمیں اسے ناپسند اوراس سے کراہت کرنے لگی ہوں کیونکہ وہ ہروقت مسجد میں لوگوں کے ساتھ بیٹھا رہتا ہے ،میں نےچار برس قبل شادی کے ابتدائي ایام میں قرآن مجید حفظ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے میراکوئ تعاون نہیں کیا اورنہ ہی وہ مجھ سے پابندی کے ساتھ قرآن مجید ہی سنتا رہا ہے اوروہ اپنے اجتماعات وغیرہ میں مشغول رہا ، اورگھرمیں صرف پندرہ منٹ سے آدھ گھنٹہ آرام کے لیے آتا ہے ۔
حالانکہ ہمارے درمیان بہت زیادہ بحث تکرار کے بعد یہ طے پایا تھا کہ وہ ایک دن گھرمیں رہا کرے گا ، اب میں ہروقت اپنی اولاد کے پاس اکیلی رہتی ہوں حتی کہ میں اس سے اورجس معاشرہ میں زندگی گزاررہی ہوں اس سے بھی تنگ آچکی ہوں اورمیں نے معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کردیا ہے اورابھی تک اپنے گھروالوں کو اس کی کوئ شکوہ شکایت نہیں کی بلکہ ان کے سامنے اپنے خاوند کی تعریف ہی کرتی ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی اس کی اصلاح کردے اوروہ گھر کا خیال کرنے لگے ۔
آپ کے علم میں ہونا چاہيۓ کہ میں اپنے گھراوربہن بھائیوں سے بہت ہی دور اجنبیت کی زندگي گزاررہی ہوں ، اوراس میں ایک اوربھی عیب ہے کہ اگرمیں اس سے اپنی ضررویات میں کوئ چيز طلب کروں تووہ جواب دیتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں ، حالانکہ وہ اپنے بہن بھائیوں پرخرچ کرتا ہے ، میرا اس سے یہ مطالبہ نہیں کہ وہ اپنے بہن بھائيوں پرخرچ نہ کرے بلکہ یہ اس کا حق ہے کہ وہ ان پرخرچ کرے لیکن مسئلہ صرف اتنا ہے کہ میرے اوراولاد کے بارہ میں بہت ہی کنجوسی کا مظاہرا کرتا ہے ، توکیا ایسا کرنا جائزہے ؟
محترم شیخ صاحب گزارش ہے کہ آپ اسے نصیحت کریں اوراس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی کوئ نصیحت کریں ۔

الحمد للہ
ہم اللہ رب العظیم سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کومصیبت سے نکالے اورآپ کے معاملہ میں آسانی پیدا فرماۓ ، اورآپ کی اجنبیت میں کوئ انسیت پیدا کردے ،اورآپکے خاوند کی اصلاح اورآپ کوبیماری سے شفایابی عطا کرے آمین ۔

آپ کاسوال کئ ایک امورپرمشتمل ہے ، جن میں فقھی مسئلہ اورمعاشرتی مشکلات بھی ہیں :

تواس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہرایک مشکل کوعلیحدہ علیحدہ بیان کريں تا کہ اس کے حل تک رسائ ہوسکے ۔

ان میں سے پہلی مشکل یہ ہے کہ :

آپ کا خاوند عقد نکاح کے وقت رکھی گئ تعلیم مکمل کرنے کی شرط سے پیچھے ہٹ رہا ہے اوراسے پورا نہیں کررہا جو کہ ایک ناجائزعمل ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جن شروط کی بنا پرتم شرمگاہوں کوحلال کرتے ہوان کو پورا کرنا ضروری ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2721 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1418 ) ۔

یعنی وہ شروط جوعورت یا اس کا ولی عقد نکاح کے وقت رکھتا ہے ، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہيۓ وہ شروط کتاب و سنت کے خلاف نہ ہوں ۔

تواس طرح خاوند پرضروری ہے کہ وہ اس شرط کوپورا کرتے ہوۓ آپ کی تعلیم میں حائل نہ ہو ۔

اورتعلیمی اخراجات اوریونیورسٹی کا اختیار شرط کی تفاصیل میں ہوگا اگرتوشرط میں یہ موجود ہے کہ وہ تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرے یا پھر کسی معین یونیورسٹی کانام شرط میں موجود ہے تواس کا بھی پوارکرنا اس کے ذمہ ہے اوراگرآپ نے اس طرح کی کوئ شرط نہيں رکھی تویہ چيزاس کے ذمہ لازم نہیں بلکہ اس کے ذمہ صرف یہ ہے کہ وہ آّپ کوپڑھنے دے ۔

اورآپ کا یہ کہنا کہ میں نے اپنے خاوند کے ساتھ نہ جانے کی نیت کی ہے تواس کے بارہ میں ہم یہ کہیں گہ اگر جہاں آپ رہنا چاہتی ہیں وہ جگہ امن وامان والی ہے توآپ کا وہاں رہنا جائزہے اوراگر امن والی نہیں توپھرآپ کا وہاں رہنا جائزنہیں ۔

لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ ایسا کرنا اس وقت ہے جب وہ تعلیم شرعی ہواوراگر وہاں مردوعورت کی مخلوط تعلیم جس میں بہت سی برائیاں اورمنکرات ہوتی ہیں جیسا کہ دنیا کی اکثریونیورسٹیوں میں ہوتا ہے تواس میں آپ کا تعلیم حاصل کرنا جائزنہیں ، اورنہ ہی آّّپ کے خاوند پر اس شرط کوپورا کرناضروری ہے ۔

اوردوسری مشکل یہ ہے کہ :

آپ کے خاوند کے پاس اتنا کافی وقت نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ بیٹھ سکے ۔

تواس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ :

وہ یہ وقت نکال سکتا ہے لیکن اس میں کچھ صحیح طرح کی پلاننگ کرنے کے بعد اوراولیات یعنی کس چيزکا حق پہلے ہے ، اوراسی طرح حقوق اورواجبات کی معرفت وپہچان کرنے کے بعد یہ سب کچھ ہوسکتا ہے ۔

ہم آپ کویاد دلاتے چلیں کہ آپ کے خاوند کا اعمال صالحہ میں مشغول رہناآپ کے لیے ایک نعمت سے کم نہيں ، اوریہ بھی ہوسکتاکہ آپ اس میں اسے کچھ معذورسمجھیں اورمعاف کردیں ، اوراس پراللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ وہ معاصی اورغلط کاموں میں تومشغول نہيں جس طرح کہ کچھ بیویوں کے خاوندوں کی حالت ہے کہ ان کا ایسے خاوندوں سے پالا پڑا ہے جو اپنے خاندان کو ضائع کرنے اوراللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی میں غرق رہتے ہیں ۔

ظاہرتویہ ہوتا ہے کہ آپ کے خاوندکوشرعیت میں فقہی اولیات کی پہچان نہیں اورواجبات شرعیہ کی ادائیگی میں عدم توازن رکھتا ہے ، لگتا ہے کہ اس نے کچھ دینی اشیاء کولے لیا اورکچھ سے پہلوتہی کررہا ہے اس لیے اسے اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان یاد کرانا ضروری ہے :

{ اے ایمان والو ! اپنے آپ اوراپنے اہل عیال کوجہنم کی اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں } ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اس کے ذھن میں لانی چاہيۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

( اوربلاشبہ تیرے اہل عیال کا بھی تجھ پرکچھ حق ہے ) ۔

اوراسے دعوت وتبلیغ میں ترتیب شرعی کا خیال رکھنا چاہيے کہ سب سے پہلے اپنے آپ اورپھراپنی بیوی اوراس کےبعد اپنی اولاد اوراس کے بعد اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو اورپھران کے بعد دور کے رشتہ داروں کو ۔

اورسب سے اہم چيز یہ ہے کہ آپ اس کے شعور میں یہ ڈالیں کہ آپ اس کے دعوتی کاموں کی مخالفت نہیں کرتيں اورنہ ہی وہ اللہ تعالی کے دین کے اعمال میں ایک پتھر ہیں لیکن آپ توصرف اس سے اپنے شرعی حق کے اہتمام کا مطالبہ کرتی ہیں ۔

آّپ اسے یہ کہیں کہ مجھے آپ ان میں سے ہی ایک سمجھیں جن کودعوت دیتے ہواوران کا اہتمام کرتے ہو اوراپنی اولاد کوبھی ایک دعوتی مشروع میں شامل کریں کہ انہیں بھی دعوت کی ضرورت ہے جس کا آپ اہتمام کرتے ہیں ، مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 6913 ) کا مراجعہ کریں ۔

اس مشکل کے حل اورختم ہوجانے کے بعد ہمیں پختہ یقین ہے کہ ان شاءاللہ تیسری مشکل بھی حل ہوجاۓ گی جوکہ اس سوال میں خاوند کی کراہت اورناپسندیدگی کی شکل میں پائ جاتی ہے جوکہ خاوند کے آپ کے ساتھ صحیح تعلقات نہ ہونے کی بنا پرپیدا ہوئ ۔

اس لیے کہ خاوند کا سلوک صحیح نہ کرنے کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاۓ گا اوراس کے ردعمل میں یہی چيزپیدا ہوگی جس کے زوال کا طریقہ یہی ہے کہ اس کا سبب ختم کردیا جاۓ جوکہ آپ کے حقوق کی عدم ادائيگي ہے ، توجب حقوق ادا ہونے لگيں گے ناپسندیدگي بھی جاتی رہے گی ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ آّپ اللہ تعالی سے کثرت کے ساتھ یہ دعا کرتی رہیں کہ اللہ تعالی اس کے دل کوآپ کے لیے اورآپ کے دل کواس کے لیے کھول دے ، کیونکہ شیطان لعین توخاوند اوربیوی کے درمیان جدائ ڈالنے پرحریص ہے ، اورآپ کے دل جوکراہت وناپسندیدگی پائ جاتی ہے وہ بھی شیطان کے وسوسے ہیں آپ اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتی رہیں ۔

چوتھی مشکل :

خاوند کا اپنے بیوی بچوں کے واجبات اورحقوق ادا نہ کرنا ، بلکہ اس کے مقابلہ میں اپنے والدین اوربھائیوں پرخرچہ کرتے رہنا ۔

خاوند کا یہ عمل صحیح اورغلط دونوں پہلووں پرمشتمل ہے ، غلط پہلو یہ ہے کہ بیوی پرخرچ نہ کرنا جوکہ واجب کے خلاف ہے بلکہ خاوند کے ذمہ واجب ہے کہ وہ بیوی پرخرچ کرنا بھائیوں پرخرچ کرنے سے مقدم ہے جس طرح کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کاحکم دیا توایک شخص کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک دینار ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے اپنے اوپرخرچ کرو ۔

وہ کہنے لگا میرے پاس ایک اوردینار ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے اپنی اولاد پرخرچ کرو ، وہ کہنے لگا میرے پاس ایک اوربھی ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی بیوی پرخرچ کرو ۔

اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اورہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسےاپنے خادم پرصدقہ کر اس نے کہا کہ میرے پاس اوربھی ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : توزيادہ علم رکھتا ہے ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1691 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ابوداود ( 1483 ) میں حسن قرار دیا ہے ۔

اگر پھربھی آپ کا خاوند اس پراصرارکرے اورخرچہ نہ دے توآپ اس کا حق رکھتی ہیں کہ اس کے مال سے اتنا لے لیں جوآپ کے ضروریات پوری کرے اگرچہ آپ کے خاوند کواس کا علم نہ بھی ہو پھر بھی لے سکتی ہيں لیکن اس میں اسراف اورزیادتی نہيں ہونی چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ ھند بنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئيں اورکہنے لگيں :

بلاشبہ ابوسفیان بخیل اورکنجوس شخص ہے اورمجھے اورمیری اولاد کومیری ضرورت کے مطابق نہيں دیتا مگر یہ میں کچھ نہ کچھ اس کے علم کے بغیر لے لیتی ہوں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اپنی اوراولاد کی ضرورت کے لیے احسن طریقے سے لے لیا کرو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5364 ) ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ آپ دونوں کے دلوں میں محبت وانس پیدا کرے اورآپ کے معاملے میں آسانی اوربہتری پیدا فرماۓ ، اورسب تعریفات اللہ رب العالمین کے لیے ہی ہیں ۔ واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ