کفار کے لیے الوداعی تقریبات کا اہتمام کرنا

کیا ہم اپنے ساتھ کام کرنے والے غیرمسلم ملازم کو الوداعی پارٹی دے سکتے ہیں ؟

الحمد للہ
کفارکوالوداعی پارٹی دینے میں ان کی عزت واحترام کی ایک نوع اورقسم پائی جاتی ہے ، اورکفار عزت واحترام کے اہل نہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کفرکا ارتکاب کیا اوراسے برا کہا اوراس کے خلاف جرات کا اظہار کیا ہے ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند کےساتھ ابوموسی رضي اللہ تعالی سے روایت بیان کی ہے کہ :

ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ : میرے پاس ایک نصرانی کاتب ہے ، وہ کہنے لگے تجھے کیا ہوا اللہ تجھے تباہ کرے کیا تونے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان نہيں سنا :

{ اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا } المائدۃ ( 51 ) ۔

تونے ملت حنیفی پر چلنے والے کوحاصل کیوں نہ کیا ( یعنی مسلمان کاتب کیوں نہ رکھا ) ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کہا اے امیرالمومنین مجھے تواس کی کتابت چاہیے اوراس کے لیے اس کا دین ہے ، عمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :

جب اللہ تعالی نے ان کی توھین کی اورانہیں ذلیل کیا ہے تومیں ان کی عزت واحترام نہيں کرونگا ، اورجب اللہ تعالی نے انہیں دور کیا ہے تومیں انہیں قریب نہیں کرونگا ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 25 / 327 ) ۔

اورعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے خصوصاعیسائیوں کے بارہ کچھ اس طرح فرمایا : ان کی توھین کرو اوران پر ظلم نہ کرو انہوں نے اللہ تعالی کوایسا برا کہا ہے اس طرح کی گالی کسی اور بشروانسان نے نہيں دی ۔

فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے کفار کے لیے ملازمت ختم ہونے پر الوداعی پارٹی کرنے اور کافر کی تعزیت کرنے اوران کے تہواروں میں شریک ہونے کا حکم پوچھا گيا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا :

یہ سوال کئي ایک مسائل کواپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے :

پہلا مسئلہ :

کفار کے لیے الوداعی پارٹی کاانعقاد کرنا ۔

اس میں کوئي شک نہيں یہ سب کچھ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی عزت افزائي اوران کی جدائي پر اظہار افسوس ہے اورمسلمان کے حق میں یہ سب کچھ کرنا حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( یھود ونصاری کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اورجب تم انہیں راستے میں ملو تو انہيں تنگ راستے سے گزرنے پر مجبور کرو ) ۔

لھذا وہ انسان جوحقیقی مسلمان ہے اس کے لیے یہ ممکن ہی نہيں کہ وہ اللہ تعالی کے دشمن اورکفار میں سے کسی ایک کی عزت واحترام کرے اورکفار تواللہ قرآن مجید کے نص کے مطابق اللہ تعالی کے دشمن ہیں ؛

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ جوشخص اللہ تعالی اوراس کے فرشتوں اوراس کے رسولوں اورجبرائیل اورمیکائیل کا دشمن ہے توایسے کافروں کا اللہ تعالی خود دشمن ہے } البقرۃ ( 98 ) ۔

دوسرا مسئلہ : کفار کی تعزیت کرنا ۔

یعنی جب کوئي کسی کا قریبی یا کافر دوست مرجائے تواس کی تعزیت کرنا ، اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے ، کچھ علماء کرام کا کہنا ہے کہ ان کی تعزيت کرنا حرام ہے ، اور کچھ علماء کہتے ہیں کہ تعزیت کرنا جائزہے ، اورکچھ علماء نے اس میں تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے :

اگر تواس میں کوئي مصلحت ہو یعنی ان کے قبول اسلام کی امید ہو یا پھر ان کے شروبرائي سے محفوظ ہونے کے لیے تعزيت کرنا ضروری ہوتوایسا کرنا جائز ہے لیکن وگرنہ حرام ہوگی ۔

راجح یہ ہے کہ اگر ان کی تعزیت میں ان کی عزت واحترام سمجھا جاتا ہو توتعزیت کرنی حرام ہوگی وگرنہ دوسری صورت میں مصلحت کو مدنظر رکھا جائے گا ،

تیسرا مسئلہ : ان کے تہواروں اورتقریبات میں شرکت کرنا ۔

اگر توان کے دینی تہوار ہوں مثلا عید میلاد اورکرسمس وغیرہ توبلاشبہ اس میں شرکت کرنا حرام ہے ، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اہل علم اس پرمتفق ہیں کہ ان کے تہواروں میں شریک ہونا جائز نہيں ، اورآئمہ اربعہ کے متبعین فقھاء کرام نے بھی اپنی کتب میں یہ تصریح کی ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔

دیکھیں مجموع الفتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ ( 2 / 303 ) ۔

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ