جھوٹ کے کچھ معملات کے بارے میں

کچھ جھوٹ بولے تھے اب کیا کروں ؟ ان جھوٹوں کو چھپانے کے لیے اور جھوٹ بولنا پڑ ررہا ہے۔ مجھے گھر والوں کو سچ بتا دینا چاہے  یا اللہ رب العزت سے معافی مانگ لوں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، اما بعد:

یاد رہے کہ جھوٹ بولنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے بے شمار مقامات پر جھوٹ کو منافقین کی صفات میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اور اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور سچائی کا درس دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ي

َا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الأحزاب: 70)

''اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی بات کیا کرو۔۔۔''

نیز فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبۃ : ۱۱۹)

''اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ''

لہذا   مسلمان کو  ہر حال میں جھوٹ سے بچ کر سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔

سوال میں مذکورہ امور:

سوال میں آپ نے گھریلو معاملات  کے حوالے سے ماضی میں بولئے ہوئے جھوٹ کے بارے میں دریافت کیا، میرے خیال میں گھریلو معاملات میں جھوٹ کی تین اقسام ہیں:

1)                   ایسا جھوٹ جس  کے برے اثرات اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں، دوسرے کے نفع و نقصان کا اس سے واسطہ نہیں ہوتا یا عارضی ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی ہو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا، بچے کو بہلانے کی غرض سے جھوٹی لالچ دینا، یا اپنی غلطی چھپانے کے لیے  جھوٹ سے کام لینا۔۔ ان تینوں صورتوں میں جھوٹ کے اثرات سے دوسری شخصیت متاثر نہیں ہوتی، یا وقتی طور پر کچھ متاثر ہوتی ہے، ایسے جھوٹ کا کفارہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے سچی توبہ کی جانی چاہیے۔فوراً اس طرز عمل سے رُک جانا چاہیے۔ آئیندہ کبھی کسی بات پر جھوٹ نا بولنے کا پختہ عزم کر لیا جائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ (الأنفال:38)  

یعنی ان کافروں سے کہو : کہ اگر اپنے کفر سے باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اور اگر دوبارہ یہ اپنے کفر میں لوٹیں گے تو اہماری سنت پہلے لوگوں کے بارے میں بھی جاری ہو چکی ہے۔

یہاں خطاب   ظاہراً تو کفار سے ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک قاعدہ ہے ، کہ جب بھی گناہوں سے توبی کی جائے گی تو اللہ رب العزت معاف فرما دیں گے۔وھو الغفور الرحیم

2)                    دوسری صورت جھوٹ کی یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کے جھوٹ کے اثرات دوسروں پر بھی جاری ہوں، جیسے  کسی کا مال غصب کرنے کے لیے جھوٹ بولنا، جھوٹ کی وجہ سے دو رشتہ داروں میں اختلافات پڑ جانا وغیرہ۔۔۔ ایسے صورت میں توبہ کے ساتھ ساتھ اس نقصان کا ازالہ بھی ضروری ہے، کیوں کہ اس جھوٹ کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور یہ حقوق اس وقت تک معاف نہیں ہو ں گے جب تک مخلوق سے معاف نہ کرائے جائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ  دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ»

جس آدمی کے کندھوں  پر کسی بھائی  پر ظلم کا بوجھ ہے، یا اس کی رسوائی کا گناہ ہے تو آج ہی اس سے معاف کرا لے، قبل اس کے کہ اس کے پاس نہ درھم ہوں اور نہ دینار، اگر اس کے پاس کوئی نیک اعمال ہوئے  تو اس کے ظلم کے برابر اس کے بھائی کو دے دیئے جائیں گے، اور اگر اس کے پاسس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے بھائی کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔[صحیح البخاري:۲۴۴۹]

لہذا اس طرح کے جھوٹ  کا کفارہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے معاملات کو واضح کر دے۔ کسی کا مال ہےتو واپس کر دے، اگر اختلافات ہیں تو ان کو حل کرا دے، خواہ اسس کے لیے اپنے جھوٹ کو واضح کرنا بھی پڑے۔ اللہ تب العزت آپ کے معاملات کی اصلاح فرما دے گے۔ ارشاد ربانی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ...الخ(الأحزاب: 70)

اے اہل ایمان ! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی بات کیا کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دے گا اورو تمہارے گناہوں ہو معاف فرما دے گا۔۔۔۔الخ

لہذا سچائی کے اظہار کے وقت عارضی پریشانی سے گھبرانے کی بجائے جرأت سے کام لے کر وضاحت کر دی جائے۔۔۔ باقی معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیئے جائیں۔ واللہ الموفق۔

3)                   ایک تیسری قسم کا جھوٹ : یہ ہے کہ آدمی دو قریبی لوگوں کے بیچ صلح کے لیے کچھ ایسی باتیں کریں جن میں حقیقت نہ ہو، لیکن اس سے مقصود دونوں بھائیوں کو قریب لانا ہو، ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ درست بلکہ قابل ستائش عمل ہے۔۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی صفوں میں  اتحاد اور کلمات میں سچائی عطا فرمائے۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب۔

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ